School Fees and vacations
Revised Article of Unaiza BS عنیزہ ذاھد
۳ بی ایس
2k16/MC/112
آرٹیکل
چھٹیوں میں سکول فیس کا معاملہ
کسی بھی ملک کی پیشرفت اور ترقی کے لئیے تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے مگر افسوس ہمارے ملک کا تعلیمی نظام اس حد تک مفلوج ہو کر رہ گیا ہے کہ اب والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کے لئیے در در کی خاک چھانتے ہیں کیونکہ ان کے ایک غلط سکول کا انتخاب ان کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا سکتا ہے ۔سرکاری سکول کی بات کی جائے تو اْنھیں اب عام آدمی بھی اپنی ترجیحات کی فہرست میں نہیں لاتا۔اول تو ان سکولوں کی خستہ حال عمارتیں اوردوسرا غیر حاضر اساتذہ، دونوں ہی قابلِ قبول نہیں۔مجبورً والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کے لئیے مہنگے اور نامور سکولوں میں داخلہ کروادیتے ہیں۔
ان تمام باتوں کا فائدہ پرائیویٹ سکولوں نے بڑی خوبی سے اْٹھایا۔معیاری تعلیم کی لالچ دے کر والدین کی جیب ٹٹولنے کا ہنر تو کوئی ان سے سیکھے جو تعلیم کے نام پر بزنس چلارہے ہیں جو سالانہ بھاری رقم بطور فیس وصول کرتے ہیں اور اوپر سے مختلف اشکال کی صورت میں جیسے ڈونیشن،سکیورٹی ڈپوزٹ ، ایکٹیوٹی فیس اور سکول ٹرپ کے نام پر بھی ہزاروں روپے دھر لیتے ہیں۔تعلیمی سال کا آغاز ہوتے ہی ایڈمشن فیس،کتابوں اور یونیفارم وغیرہ کے اخراجات سے فارغ ہوکر والدین سر اْٹھاتے ہی ہیں کہ دو تین ماہ بعد ان کی قمر پر گرمیوں کی چھٹیوں کی اکھٹی فیس کابوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔
مہنگائی کے اس دور میں جب کمانے والا ایک افراد ہو جس پر بنیادی ضروریات جیسے روٹی، کپڑا اور مکان جیسی ذمہ داریوں کے علاوہ بجلی،پانی اور گیس کے بل کا بوجھ ہو اوپر سے بچوں کے مدرسے اور ٹیوشن کی فیس الگ دینی ہو تو اسے میں پیچھے بچت کرنے کے لئیے کچھ نہیں رہتا اور پھر رہی صحیح قصر پرائیویٹ سکول چھٹیوں کی فیس کا چالان تھما کر نکال لیتے ہیں۔اور جب والدین اسکے خلاف ایکشن لیتے ہیں تو یہی سکول بچے کا نام سالانہ پرچوں سے کاٹ دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔
اگر دوسرے مما لک کے سکولوں پر نظر ثانی کی جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کا نظام وہاں بھی موجود ہے۔سرکاری سکول میں پڑھنے والے بچوں پر سالانہ ساڑھے چھہ ارب ڈالر لاگت آتی ہے جس کی ادائیگی کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی فس والدین خود ادا کرتے ہیں جس کی فیس سرکاری سکولووں سے 222۴۰ ذیادہ ہوتی ہے جو صرف پڑھائی والے دنوں میں ہی وصول کی جاتی ہے یعنی چھٹیوں میں فیس وصولی کا وہاں کوئی نظام نہیں ۔
اب اصل مسلہ تو یہ ہے کہ جب چھٹیوں میں بچے سکول جاتے ہی نہیں تو فیس کیسی؟ یہ ہی موقف لے کر والدین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے جا پہنچے اور اس بات پر خوب احتجاج کیا کہ اتنی فیس وہ بھی اکھٹی جمع کروانا ان کی پہنچ سے باہر ہے۔جب مہینے کی شروعات میں ہی ان سے ہزاروں روپے وصول کر لئیے جائیں گے تو گھر کا خرچ کس طرح چلے گا آخر سکول کے علاوہ بھی بہت سے اخراجات ہوتے ہیں ۔اب اگر حکومت ان بچوں کو اچھی تعلیم سے سْبکدوش نہیں کر سکتی تو کم از کم ان کا یہ مسلہ تو حل کروا ہی سکتی ہے۔
How a judge can present a case in court?
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا ، کیس کی سماعت کے بعد یہ نوٹس جاری کر دیا گیا کہ کوئی بھی سکول چھٹیوں کی فیس نہیں لیگا جب کہ یہ فیصلہ صرف کاغذی حد تک ہی محدود رہا۔ پرائیویٹ سکولوں نے اس فیصلے کو ایک کان سے سن کردوسرے کان سے نکال دیا ۔پرائیویٹ سکولوں کا کہنا ہے کہ اگرچھٹیوں میں فیس وصول نہیں کی گئی سکول کا کرایہ کہاں سے آئیگا ؟ بجلی کے بل کیسے ادا ہونگے؟ اور وہ ٹیچرز جنکا دوسرا ذریعہِ کمائی نہیں، کہاں سے گھر کے اخراجات اْٹھائیں گے؟
فیس کے مسلے کو لے کر پرائیویٹ سکولز اور بچوں کے والدین کے درمیان خلش بڑھتی جا رہی ہے۔سنجیدگی سے بیٹھ کر اس معاملے کا حل نکالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔نظام اس وقت تک درست نہیں ہو گا جب تک بچوں کے والدین اور سکول والے آپس میں متفق نہ ہونگے۔ اسی لئے دونوں کا ایک ساتھ تعون کر کے چلنے میں ہی بہتری ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کو چاہیئے کہ وہ والدین پر ایک ساتھ تین ماہ کی فیس کا بوجھ نہ ڈالیں اور ممکن ہو سکے تو چھٹیوں کی فیس کا صرف آدھا فیصد حصہ وصول کر لیں اس طرح والدین پر بھی بوجھ نہیں پڑے گا اور سکول کا نظام بھی بہترین طریقے سے چلتا رہے گا۔ جبکہ والدین کو چاہیئے کہ وہ سکولوں کے عائد کردہ اصولوں کی پاسداری کریں اور ہر مسلے کو اس قدر نہ اْچھالیں کہ سکول کی عزت پامال ہونے
۳ بی ایس
2k16/MC/112
آرٹیکل
چھٹیوں میں سکول فیس کا معاملہ
کسی بھی ملک کی پیشرفت اور ترقی کے لئیے تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے مگر افسوس ہمارے ملک کا تعلیمی نظام اس حد تک مفلوج ہو کر رہ گیا ہے کہ اب والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کے لئیے در در کی خاک چھانتے ہیں کیونکہ ان کے ایک غلط سکول کا انتخاب ان کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا سکتا ہے ۔سرکاری سکول کی بات کی جائے تو اْنھیں اب عام آدمی بھی اپنی ترجیحات کی فہرست میں نہیں لاتا۔اول تو ان سکولوں کی خستہ حال عمارتیں اوردوسرا غیر حاضر اساتذہ، دونوں ہی قابلِ قبول نہیں۔مجبورً والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کے لئیے مہنگے اور نامور سکولوں میں داخلہ کروادیتے ہیں۔
ان تمام باتوں کا فائدہ پرائیویٹ سکولوں نے بڑی خوبی سے اْٹھایا۔معیاری تعلیم کی لالچ دے کر والدین کی جیب ٹٹولنے کا ہنر تو کوئی ان سے سیکھے جو تعلیم کے نام پر بزنس چلارہے ہیں جو سالانہ بھاری رقم بطور فیس وصول کرتے ہیں اور اوپر سے مختلف اشکال کی صورت میں جیسے ڈونیشن،سکیورٹی ڈپوزٹ ، ایکٹیوٹی فیس اور سکول ٹرپ کے نام پر بھی ہزاروں روپے دھر لیتے ہیں۔تعلیمی سال کا آغاز ہوتے ہی ایڈمشن فیس،کتابوں اور یونیفارم وغیرہ کے اخراجات سے فارغ ہوکر والدین سر اْٹھاتے ہی ہیں کہ دو تین ماہ بعد ان کی قمر پر گرمیوں کی چھٹیوں کی اکھٹی فیس کابوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔
مہنگائی کے اس دور میں جب کمانے والا ایک افراد ہو جس پر بنیادی ضروریات جیسے روٹی، کپڑا اور مکان جیسی ذمہ داریوں کے علاوہ بجلی،پانی اور گیس کے بل کا بوجھ ہو اوپر سے بچوں کے مدرسے اور ٹیوشن کی فیس الگ دینی ہو تو اسے میں پیچھے بچت کرنے کے لئیے کچھ نہیں رہتا اور پھر رہی صحیح قصر پرائیویٹ سکول چھٹیوں کی فیس کا چالان تھما کر نکال لیتے ہیں۔اور جب والدین اسکے خلاف ایکشن لیتے ہیں تو یہی سکول بچے کا نام سالانہ پرچوں سے کاٹ دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔
اگر دوسرے مما لک کے سکولوں پر نظر ثانی کی جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کا نظام وہاں بھی موجود ہے۔سرکاری سکول میں پڑھنے والے بچوں پر سالانہ ساڑھے چھہ ارب ڈالر لاگت آتی ہے جس کی ادائیگی کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی فس والدین خود ادا کرتے ہیں جس کی فیس سرکاری سکولووں سے 222۴۰ ذیادہ ہوتی ہے جو صرف پڑھائی والے دنوں میں ہی وصول کی جاتی ہے یعنی چھٹیوں میں فیس وصولی کا وہاں کوئی نظام نہیں ۔
اب اصل مسلہ تو یہ ہے کہ جب چھٹیوں میں بچے سکول جاتے ہی نہیں تو فیس کیسی؟ یہ ہی موقف لے کر والدین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے جا پہنچے اور اس بات پر خوب احتجاج کیا کہ اتنی فیس وہ بھی اکھٹی جمع کروانا ان کی پہنچ سے باہر ہے۔جب مہینے کی شروعات میں ہی ان سے ہزاروں روپے وصول کر لئیے جائیں گے تو گھر کا خرچ کس طرح چلے گا آخر سکول کے علاوہ بھی بہت سے اخراجات ہوتے ہیں ۔اب اگر حکومت ان بچوں کو اچھی تعلیم سے سْبکدوش نہیں کر سکتی تو کم از کم ان کا یہ مسلہ تو حل کروا ہی سکتی ہے۔
How a judge can present a case in court?
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا ، کیس کی سماعت کے بعد یہ نوٹس جاری کر دیا گیا کہ کوئی بھی سکول چھٹیوں کی فیس نہیں لیگا جب کہ یہ فیصلہ صرف کاغذی حد تک ہی محدود رہا۔ پرائیویٹ سکولوں نے اس فیصلے کو ایک کان سے سن کردوسرے کان سے نکال دیا ۔پرائیویٹ سکولوں کا کہنا ہے کہ اگرچھٹیوں میں فیس وصول نہیں کی گئی سکول کا کرایہ کہاں سے آئیگا ؟ بجلی کے بل کیسے ادا ہونگے؟ اور وہ ٹیچرز جنکا دوسرا ذریعہِ کمائی نہیں، کہاں سے گھر کے اخراجات اْٹھائیں گے؟
فیس کے مسلے کو لے کر پرائیویٹ سکولز اور بچوں کے والدین کے درمیان خلش بڑھتی جا رہی ہے۔سنجیدگی سے بیٹھ کر اس معاملے کا حل نکالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔نظام اس وقت تک درست نہیں ہو گا جب تک بچوں کے والدین اور سکول والے آپس میں متفق نہ ہونگے۔ اسی لئے دونوں کا ایک ساتھ تعون کر کے چلنے میں ہی بہتری ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کو چاہیئے کہ وہ والدین پر ایک ساتھ تین ماہ کی فیس کا بوجھ نہ ڈالیں اور ممکن ہو سکے تو چھٹیوں کی فیس کا صرف آدھا فیصد حصہ وصول کر لیں اس طرح والدین پر بھی بوجھ نہیں پڑے گا اور سکول کا نظام بھی بہترین طریقے سے چلتا رہے گا۔ جبکہ والدین کو چاہیئے کہ وہ سکولوں کے عائد کردہ اصولوں کی پاسداری کریں اور ہر مسلے کو اس قدر نہ اْچھالیں کہ سکول کی عزت پامال ہونے
کا خدشہ ہو
#UnaizaZahid, #SchoolFees, #Education,
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment