Muhammad Shazeb Iqbal Profile marvi shoukat
انگریزی الفاظ نہ ڈالیں۔ پروفائل ایک طرح سے کسی شخصیت پر فیچر ہے۔ لہٰذا اس پر فیچر کے تمام اصول لاگو ہوتے ہیں۔ یہ رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔ اور تمام تر معلومات دلچسپ پیرایے میں لکھی جاتی ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو یہ سوانح پر نوٹ ہو جائے گا۔ معلومات میں کچھ رنگ بھرو۔ موازنہ اور متضاد ڈھونڈو
Muhammad Shazeb Iqbal
Profile marvi shoukat urdu BS 47
تحریر ماروی شوکت
کلا س بی ایس پارٹ III
Profile marvi shoukat urdu BS 47
تحریر ماروی شوکت
کلا س بی ایس پارٹ III
رول نمبر 2K16/MC/47
پروفائل محمد شاہ زیب اقبال
( کا میا ب شخص کی کھٹن محنت کو ئی نہیں جا نتا )
بچپن میں کھیلنا کودنا ، گھو منا پھرنا کیا ہو تا ہے شاہ زیب ان سب سے محروم رہا کیونکہ انہو ں نے 5 سال کی عمر سے اپنی زمہ داریو ں کا بیڑاہ اٹھا لیا تھا ۔ والد کے مر ض قلب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہر جگہ وہ اپنے والد کے ساتھ جا تے تھے ان کے والد اکثر بیما ری کی وجہ سے اسپتال میں زیر علا ج ہو تے تھے اور وہ بھی ان کے ساتھ واہیں رہتے تھے ۔ جب وہ 9 سال کے ہو ئے 1992 میں والد کو برین ہیمرج ہوا ،لیکن اﷲ نے انہیں جلد صحتیا ب کر دیا 6 بہن بھا ئیوں میں دوسرے اور بڑے بھا ئی ہو نے کی وجہ سے انہیں اپنی ذمہ داریو ں کا احسا س تھا 1992 میں والدہ نے اپنے زیو را ت بیچ کر اسکول بیگ کی دکا ن کھلوا کر دی لیکن وہ بھی زیا دہ چل نہیں سکی اور 1994 میں بند کر نی پڑی والد صاحب چونکہ فو ٹو گرا فی میں مہا ر ترکھتے تھے اس لئے 1994 میں فوٹو اسٹوڈیو کھولنے کا فیصلہ کیا جو آج بھی جا ری ہے اور اونچا ئی کی بلندیوں پر ہے اس کم عمری میں شاہ زیب پڑھا ئی بھی کرتے والد کے ساتھ اسٹوڈیو بھی سنبھالتے اور اسپتالوں کے چکر بھی لگا تے لیکن وہ کبھی بھی خدا سے شکایت نہیں کرتے اور اﷲ تیرا شکر ہے ہر وقت انکی زبان پر رہتا تھا 1998 میں پاکستان پائلٹ اسکول سے A1 گریڈ کے ساتھ میڑک کیا اور Top Boy of the year کے خطاب سے نوا زا گیا ۔ اسکول کی جانب سے فر سٹ ایئر اور انٹر میں اسکا لر شپ مہیا کی ۔جسکی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جا ری رکھ سکے ۔ شاہ زیب کی محنت اور لگن دیکھ کر International Testing Service سینٹر نے انٹری ٹیسٹ کی تیا ری مفت کر وا ئی شاہ زیب خو ب دل لگا کر پڑھتے اور محنت کر تے اور اپنا ڈاکٹر بننے کا خواب پو را کر نے چا ہتے تھے ۔ لیکن کدا کو کچھ اور منظو ر تھا ۔ انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے انٹر میڈیت کے رزلٹ میں انہیں دو پیپر و ں میں غیر حا ضر کر دیا جس کی وجہ سے وہ بہت ما یو س ہو گئے تھے لیکن ہمت نہیں ہا ری اور بڑ ھا ئی اور سلسلہ جا ری رکھا اور سندھ یو نیورسٹی میں شعبہ کیمسٹر ی میں داخلہ لیا ۔ 2001 میں والد کا انتقال ہو گیا اور یو ں زمہ داریو ں کا پو را بوجھ انکے کندھو ں پر آپڑا اپنی پڑھائی اور چھو ٹے بہن بھا ئیو ں کو پڑھا نا بڑ ی بہن کی شادی کر وا ئی جو والد کی حیا تی میں ہی طے ہو چکی تھی گھر کے اخرا جا ت پو رے کر نے کے لئے اسٹو ڈیو کی بھی سنبھالنا یعنی زمہدار یو ں کا انبا ر لگ گیا ، والدہ کی پینشن اور اپنی دکان کا قبضہ چھڑوانے کے لئے کورٹ میں کیس داخل کیا صبح یو نیورسٹی جا تے وقت انکی آنکھو ں کا سرخ ہو نا عام سی بات تھی کیونکہ وہ رات دیر گئے تک شادیوں میں فوٹو گرافی کر تے پھر صبح یو نیور سٹی اور واپسی میں کو رٹ کچہری کے چکر آخر 2002 میں شا ہ زیب کو یو نیورسٹی چھو ڑ نی پڑ ی اور کالج سے MA.Economics کیا ۔ شاہ زیب نے انتھک محنت کی اور اپنے کام سے مخلص رہے اورکام میں کبھی بے ایما نی نہیں کی یہ ہی وجہ تھے کہ اﷲ نے انکی بہت مدد کی اور 2005 میں بہن کی شادی والدہ کو حج و عمرہ کر وایا سب بہن بھا ئیوں کو تعلیم دلوائی انکی یہی ثابت قدمی کھٹن محنت کا پھل اﷲ نے کچھ یوں دیا کہ جس دکان پر 45 سالوں سے قبضہ تھا انکے آباؤ اجداد وہ چھو ڑوانہیں سکے وہ شاہ زیب نے کیس جیت کر حاصل کر لی
2008 میں گھر اور اسٹو ڈیو کی تعمیر کا کام شروع کر وا یا اور 2011 میں ایک شاندار اسٹو ڈیو تعمیر ہوا جسے آج پورا حیدر آباد Sunlight Studio کے نام سے جانا جا تا ہے ۔
شاہ زیب کی کٹھن محنت ، ثابت قدمی ، مخلص اور ایمانداری ہو نا اپنے کام کے لئے بڑی سوچ رکھنا کے کام کرنا ہے تو اچھا کرو ورنہ نہیں کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ آج شاہ زیب اپنی زند گی میں بہت خو ش ہے اور ایک پر سکو ن اور آرائشو ں بھری زندگی گذار رہے ہیں ۔
ہمیں شاہ ذیب کی زندگی سے یہ سبق حاصل کر نا چا ہیئے کہ ہمیں قدم بہ قدم چلنا چا ہئے تاکہ ہم کندن بن جا ئے انسان اگر اپنے شوق کو لے کر سنجیدہ ہو جا ئے تو شاہ زیب کی طر ح کیا کچھ نہیں کر سکتا بس ضرو رت ہے تو ایک نظریہ کی ہمیں اپنی سوچ بڑ ی اور صاف رکھنی چا ہئے کسی کو ہماری وجہ سے تکلیف نہ ہو تو بدلے میں ملنے والی کا میا بی بہت بڑی اور خو شگوا ر ہو تی ہے اس لئے ہمیں شارٹ کٹ کا راستہ نہیں اپنا نا چا ہئے کیونکہ اس میں وقتی طور پر کامیا بی ملتی ہے ناکہ ہمیشہ رہنے والی ۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment