Hyderabad need planning Nasim- Article- MA Urdu
Do not use English words.
First give situation and then town planning.
Writer's full name missing
Writer's full name missing
Referred back. file it again till Sep 23.
Nasim- Article- MA U
حیدرآبادکونئی تعمیراتی منصوبہ بندی کی ضرورتجب سے شہروجود میں آئے ہیں ان کی طرزِ تعمیر بدلتی رہی ہے مگر موجودہ دور میں مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہوگیا ہے ۔ ماضی میں جو شہر بسائے گئے وہ اس وقت کی ضرورت کے حساب سے تھے مگر وموجودہ دور میں وہ شہر و بال جان بنے ہوئے ہیں ۔
نا مناسب سفری سہولیات ، گندگی کے ڈھیر ، مہنگے گھر ، بنیادی ضرورت زندگی عد م فراہمی ، ٹریفک جام ، ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل روز مرہ زندگی کو مشکل سے مشکل بنار ہے ہیں ۔
آج کے دور میں شہروں کی تعمیر میں نہ صرف دور حاضر بلکہ مستقبل کی ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا ۔
حیدرآباد آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا آٹھواں بڑا اور صوبہ سندھ کو دوسرا بڑا شہر ہے ۔1997کی مردم شماری سے 2017کے مردم شماری تک آبادی میں 48فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ جس کی وجوہات شرح پیدائش اوردیہات سے لوگوں کا شہروں میں آکر بسنا ہے ۔ مناسب تعمیراتی منصوبہ بندی نا ہونے اور جو تعمیراتی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے نئی ہاؤسنگ اسکیمیں بھی شہر کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کررہی ہیں ۔ رقبہ کے لحاظ سے شہر حیدرآباد 319اسکوائر کلو میٹر ہے اور ہر کلیو میٹر میں 5400لوگ رہتے ہیں شہر اپنی تعمیراتی اسکیموں میں دو اطراف سے اپنی حدوں کو چھو رہا ہے باقی دو اطراف میں سے ایک طرف کی زمین زرعی ہے جس کی تعمیرات میں جھونک دیتا بہت بڑا نقصان ہے شہر شمال کی جانب جو علائقہ ہے اور اونچائی پر وقع ہے اور تعمیرات کے لئے موزوں بھی ہے ۔ حکومت سندھ کی جانب سے اسی طرف ہاؤسنگ اسکیم متعار ف کروائی گئی ہے جس پرکام ہونے میں شاید سالوں لگ جائیں مگر بھی یہ احسن قدم ہے ۔
اقوام متحدہ کے 2015میں ایجنڈ 2030کاآغاز کیا ہے ،جو Sustainale Development 17مقاصد پر مشتمل ہے جس میں انسانوں معیاری اور پائیدار رہائش فراہم کرنے پر زور دیتا ہے 17مقاصد میں سے مقصد گیارہ کہتا ہے کہ انسانوں کو محفوظ لچکدار یعنی قدرتی آفات کی صورت میں موزوں اور پائیدار مسکن فراہم کئے جائیں گے حکومت پاکستان فروری 2016میں قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کی کہ ایجنڈا 2030ہمارا قومی ایجنڈا ہوگا اسی طرح SGDاب PGDکے طور پر مان لیا گیا ہے ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے حکومت ان مقاصد کے حصول کے لئے سنجیدہ ہے مقصد نمبر11کے احداف مندرجہ ذیل ہیں ۔
1۔ 2030 تک تمام لوگوں کو محفوظ اور سستے گھر فراہم کئے جائیں گے اور کچی بستیوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا ۔
2۔ معیاری اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے کی جس میں عورتوں بچوں بوڑھوں اور معذروں کو خصوصی سہولیات دی جائیں ۔
3۔ شہروں کی گنجائش بڑھائی جائے گی اور فطرت حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا ۔
4۔ شہروں کے ماحولیات کو بہتر بنایا جائے گا کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بہتر بندوبست کیا جائے گا ۔
5۔ تمام لوگوں بالخصوں عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور معذروں کے لئے سبزہ اور عوامی مقامات کو یقینی بنایا جائے گا ۔
6۔ بڑے شہروں چھوٹے شہروں اور دیہات کے درمیان سماجی اقتصادی اور ماحولیای رابطہ کو مضبوط کیا جائے گا قومی اور علاقائی منصوبہ بندی کے ذریعے ۔
7۔ ترقی یافتہ ملکوں، مالی ، اور تکنیکی مد د فراہم کی جائے گی کہ وہ معیاری عمارتیں بنائی علاقائی میٹرئل کو استعمال کرتے ہوئے ۔
اقوام متحدہ کے وژن کے مطابق شہر کی منصوبہ بندی کرنا بہت ضروری ہے لیکن ہم دیکھیں ہماری اپنی سابقہ پالیسی پر عمل کتنے فیصد ہورہا ہے ۔ حیدرآباد میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو کہ جو حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نقشے سے مطابقت رکھتا ہو ۔ شاید ہی کوئی گلی سڑک ایسی ہو جس کے دونو طرف ناجائز تجاوزات نہ ہوں ۔
ان مسائل کے حل کے لئے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے ان میں سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا جو پالیسی بھی بنائی جائے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا ۔
اس وقت جو ہاؤسنگ پالیسی لاگو ہے وہ 2001میں بنائی گئی اور وہ 1918کی مردم شماری کے مطابق تھی اس پالیسی کو 2017کی مرد م شماری کے مطابق اور ایجنڈا 2030کو مد نظر رکھتے ہوئے بنانا ہوگا ہاؤسنگ اسکیموں اور شاپنگ مال اور دیگر مارکیٹوں کے لئے تجاویز مندرجہ ذیل ہیں ۔
گھروں کی تعمیر:۔
1۔ گھروں تعمیر میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گھر حیدرآباد ڈیلپمنٹ اتھارٹی کے عین مطابق ہو اس میں ہوا روشنی کا مناسب انتظام ہو گھر مکمل طور پر کورڈ نہ ہونے اس میں کھلی جگہ چھوڑی جائے ۔گھر کے باہر باغیچہ کی جگہ بھی دی جائے گھر کے اندر اور باہر گاڑی کی پارکنگ کی جگہ بھی ہو ۔
2۔ گھر تعمیر پائیدار ہو اس میں سیم سے بچاؤ کے لئے اقدامات کئے جائیں ناقص میٹریل کے استعمال کی سختی سے روک تھام کی جائے بجلی اور دیگر تاروں کے لئے محفوظ طریقے استعمال کئے جائیں ۔
3۔ گھر وہ کے سامنے گلی اتنی چوڑی ہو کہ اس میں ایک گاڑی پارک کرنے کی جگہ ہو اور دو گاڑیاں آمنے سامنے گزر سکیں ۔
4۔ گھروں کے بعد ایک چھوٹا سا پارک ہو جس میں شام کے اوقات بچے خواتین اور بزرگ چہل قدمی کرسکیں اور کھلی ہوا میں بیٹھ سکیں ۔
5۔ ہر 100سے200گھروں کے لئے ایک کھیل کا میدان ہونا چاہیے جہاں نوجوان کھیل کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں ۔
6۔ ہر 100سے 200گھروں کے لئے ایک ڈسپنسری ہو جہا کسی بیماری کی صورت میں ابتدائی علاج کی سہولت ہو ۔
7۔ ہر دو سو گھروں کے لئے ایک مارکیٹ ہو جہاں بنیادی ضروریات میسر ہو وہاں پارکنگ کا بھی مناسب انتظام ہو
بازاروں کی تعمیر
بازاروں کی تعمیر کو متعلقہ کاروبار کی نوعیت سے تعمیر کیا جائے جس دکانیں ورکشاپ ریستواران وغیرہ کی کیٹگریز بناکراں کو اس مناسبت سے تعمیر کیا جائے ۔
1۔ وہ چیزیں جن کی خریداری اور مزہ زندگی کا حصہ ہے جسے کپڑے جوتے کاسمیٹکس ان کو ایک جگہ رکھا جائے اور ان میں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہو اور تھوڑے سے فاصلہ پر پارکنگ کا مناسب انتطام ہو ۔
2۔ وہ رروایات زندگی جن کی ضرورت روزانہ کی بنیاد پر نہیں ہونی جسے کہ فرنیچر ، بجلی کا سامان ہوم اپلائنسز ان کو ایک کیٹگری بھی فراہم کی جائے تاکہ معلومات حاصل کرنے کے لئے آنے والوں کو بھی آسانی ہو ان مارکیٹوں میں چھوٹے ریستوران بنائے جائیں تاکہ کھانے کے شوق سے آنے والے مسائل کا سبب نہ بنیں کیونکہ ایسی مارکیٹوں میں لوڈنگ کی گاڑی ہوتی ہیں اس سے آمد رفت میں دشواری آتی ہے ۔
3۔ ہر طرح کی مارکیٹوں میں چھوٹی ورکشاپ جسے کہ ٹائم پینکچر کی مرمت کی سہولت ہو ۔
4۔ اس کے علاوہ ڈسپنری کی سہولت بھی ہو جس میں ابتدائی طبی سہولیات میسر ہوں ۔
ورکشاپس کی تعمیر :۔
1۔ ورکشاپس بھی جگہ جگہ بنی ہوتی ہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے ورکشاپ کے لئے بھی جگہ مخصوص کی جائے ۔
2۔ اس کے ساتھ ورکشاپ بھی تمام طور پر نارمل دکان کی طرز پر بنائی جاتی ہے ۔ جو کہ زیادہ گاڑیاں مرمت کے لئے آنے کی صورت میں دشواری کا سبب بنتی ہے ورکشاپ کے لئے نسبتاًبڑی عمارت ہونی چاہیے ۔اور اس کے باہر کافی جگہ ہو جس میں گاڑیاں کھڑی کرکے ان کی مرمت کی جاسکے ۔
3۔ کچھ مرمت اس طرح ہوتی ہے جس ورکشاپ کے اندر کیا جانا چاہیے جیسے کہ کلر اسپرے وغیرہ اس طرح کے کام کو سڑک پر نہ کیا جائے ۔
اسپتالوں کی تعمیر :۔
1۔ اسپتالوں کے لئے بھی شہر کے اندر اور باہر جگہ محصو کی جائے اور کے آس پاس اسی مارکیٹیں نہ ہو جس سے اسپتال کی طرف آنے جانے میں دشواری ہو ۔
2۔ اسپتال کے باہر ایمرجنسی پارکنگ اور مستقل پارکنگ کا الگ انتظام ہو ۔
3۔ ایمر جنسی پارکنگ صرف ایمبولینس کے لئے مخصوص ہوباقی گاڑیاں دشواری کا سبب نہ بنیں ۔
تعلیمی اداروں :۔
1۔ اسکولوں کی تعمیر میں روڈ سے دور سروس میں پر کی جائے تاکہ بچوں کی حفاظت ہوسکے ۔
2۔ اسکولوں کے اوقات میں بڑی جسے کہ ٹرک ٹرالر کی آمدو رفت روک دی جائے اور سروس لین پر اس کا داخلہ ممنوع ہو ۔
3۔ پرائمر اسکول ہاؤسنگ سوسائٹی کے اندر بنائے جائیں اور ان کے آس پاس ٹریفک زیادہ نہ ہو ۔
کسی بھی مسئلے پر پالیسی بنانے سے زیادہ اہم ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اگر ہم بھی تجاویز قابل عمل سمجھی
جائیں ان کو پالیسی کا حصہ بنا کر اس پر عمل درآمد کو رلازم کریں تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے احداف حاصل کرلیں گے
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment