Umair Ahmed- Importance of Practical work during studies

Article is to analsye, interpret, explain or argue anything. It should have relevancy, thought, figures and facts, conclusion. It should carry reference of some report etc.
Umair Ahmed- Importance of Practical work during studies 
Article- Urdu- BS#3
عمیر احمد خان
: بی۔ایس پارٹ ۳
رول نمبر : ۱۱۰؍ایم سی؍۲۰۱۶
اساعمنٹ : آرٹیکل
تعلیمی میدان میں پریکٹیل ورک کی اہمیت

تعلیم ہر مرد و عورت کے لیے ابہت ضروری ہے۔ تعلیم انسان کو شعور فراہم کرتی ہے۔ تعلیم انسان کو فرش سے اٹھا کر بلندیوں تک لے کر جاتی ہے اور تعلیم ہی کی بدولت کوئی معاشرہ دوسرے معاشرے سے ترقی کے میدان میں مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔اچھا نظام تعلیم کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ طلباء کو عالم بنا نے اور بیرونی ماحول کو جاننے کے قابل بناتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی،فکری اورتہذیبی تربیت بھی کرتا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں وہ اپنی میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا تجزیہ کرکے اپنی صحیح رائے قائم کرسکے۔تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں کام آنے والی صلاحیتوں اور تکنیکی میدان میں مہارتوں کا حصول بھی بہت ضروری ہے کیونکہ تخلیقی صلاحیتیں ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتی ہیں۔

تعلیم صرف کاغذی ڈگری کے حصول کا نام نہیں ہے کہ ہر کسی کو دکھا کر یہ دکہا جاسکے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں بلکہ تعلیم رویوں،اعمال،زبان،کام کرنے کے انداز اور زندگی کے عمل سے نظر آتی ہے۔اسکول،کالج اور یونیورسٹی کسی بھی سطح پر تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل ورک بہت ضروری ہے کیونکہ یہ طلباء میں اعتماد اور لگن پیدا کرتا ہے اور مطلوبہ تعلیمی مقاصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

دورانِ تعلیم پریکٹیکلز طلباء کی عملی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ پریکٹیکل ورک میں مہارت سے طلباء کسی کام کو محفوظ طریقے سے کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں فیصلہ لینے کی صلاحیت،چیزکو پرکھنے کی صلاحیت ،آلات کا بہتر انداز میں استعمال اور بہتر نتائج کے حصول کے لیے دلچسپی سے کام کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ا سکول و کالج کے طلباء میں گروپ پریکٹیکلز کی بدولت ٹیم ورک،حکمت عملی سے مسائل کا حل،کچھ نیا کرنے کی لگن اور نئے نظریات اور تجربات کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ یہ طلباء میں تحقیق کی خوبی بھی پیدا کرتے ہیں۔

تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکلز کو بھی بھرپور توجہ دینے والے طلباء میں عقل، حوصلہ، کوشش،،مسئلے کا حل،ذمہ داری کا احساس اور ناکامیوں سے سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ تمام خوبیاں ہیں جو عملی زندگی میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔مثلاً جو بچے حساب میں کمزور ہوتے ہیں اگر ایسے بچوں کو مختلف اوقات میں پیسے دے کر خریداری کے لیے کہا جائے تو چند کوششوں کے بعد ان کے اندر پیسوں کے حساب اور خریداری کے بہتر انداز پیدا ہوجاتے ہیں اس طرح صرف تھیوری کی کتابوں کے رٹہ کی بجائے چند عملی سرگرمیوں پر توجہ دے کر طلباء کی بہت سی صلاحیتوں کو نکھارا جا سکتا ہے۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ طلباء جب کسی کام کو بہتر انداز میں مکمل کرلیتے ہیں تو ان کے اندر بڑا جوش اور جذبہ پیدا ہوتاہے اور وہ ناقابلِ یقین خوشی محسوس کرتے ہیں۔یہ بات بھی تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ تھیوری اور کتابی باتیں طلباء کے ذہن سے کچھ عرصہ کے بعد مٹِ جاتی ہیں لیکن اس کے برعکس کوئی بھی عملی کام طلباء کے ذہن میں ہمیشہ ڈیرہ ڈال لیتا ہے اور ایک عرصے بعد بھی اس کام کو اس کی مکمل جزئیات کے ساتھ بہتر انداز میں سرانجام دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عملی کام یعنی پریکٹیکلز کے ساتھ دی گئی تعلیم موثر ثابت ہوتی ہے۔ہمارے موجودہ نظام تعلیم کے بگاڑ اورخستہ حالات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے طلباء کو صرف تھیوری پڑھائی جاتی ہے جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں استعمال نہ ہونے کی وجہ سے زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔ اور وہ گدھوں کی طرح ایک ہی جگہ گھومتے رہ جاتے ہیں اور نتیجتاً زندگی کے کئی سال صرف کرنے کے بعد جب طلباء ڈگری حاصل کرکے عملی میدان میں نکلتے ہیں تو ہر فیلڈ میں ناکام نظر آتے ہیں جو بعد میں کام چوری،ناجائز ذرائع کے استعمال اور بہت سے دوسرے معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان کے برعکس دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں تھیوری اور پریکٹیکلز دونوں کو ایک جتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ان ممالک کے طلباء میں اعتماد کا اصافہ ہوتا ہے اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بغیر کسی پریشانی کے اپنی متعلقہ فیلڈ میں بھرپور انداز میں کام کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان ممالک کی ترقی کی رفتار بہت تیز ہے۔عملی تعلیم میں کمی ہمارے طلباء کی کامیابی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا بھر میں ریاستیں طلباء کو خودمختار بنانے کے لیے عملی تعلیم پر زور دیتی ہیں مگر پاکستان میں اس مدعا پر کوئی خاص بحث نظر نہیں آتی۔

ہمارے ہاں جن چند کالجز میں اس بات پر توجہ دی جاتی ہے وہاں تربیتی سہولیات ہی موجود نہیں ہیں۔ جدید پریکٹیکل لیبارٹریز اور آلات کی نا موجودگی بھی اس ناکامی کی بڑی وجہ ہیں۔جن ا سکولوں میں گورنمنٹ کی طرف سے لیبارٹریز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے وہاں اساتذہ کی طلباء کے مستقبل سے دلچسپی نا ہونے کی وجہ سے پریکٹیکلز پر توجہ ہی نہیں دی جاتی جس کے نتیجے میں قوم کا مستقبل خطرے کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امتحانات میں جب پریکٹیکلز کی باری آتی ہے تو ہمارے طلباء بازار سے بنی بنائی پریکٹیکل کاپیاں مہنگے داموں خرید کر جیسے تیسے وقت گزار لیتے ہیں۔ہمارے ملک میں مہارتوں اور سائنسی تعلیم کی مناسب اردو کتابوں کی نا موجودگی اور گھٹیا میعار ہونا بھی طلباء کی عملی تعلیم کے حصول سے بیزاری کی بڑی وجہ ہے۔

پاکستان میں پریکٹیکلز کے معاملے میں تعلیمی ادارے اور طلباء دونوں سنجیدگی سے کام نہیں لیتے اسی وجہ سے ہمارے طلباء ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود بھی ملکی نظام کی ترقی اور بہتری میں کو ئ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوپاتے یہی وجہ ہے کہ ہم بجائے ترقی کے روز بروز پستی اور ناکامی کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا طالب علم تعلیم کے میدان میں ناصرف تحقیقی صلاحیتوں سے محروم ہو گیا ہے بلکہ علم کا حصول اور اس کی جستجو کا جذبہ بھی ختم ہو رہا ہے جو کہ ہمارے مستقبل کے لئے خطرے کی علامت ہے
ضرورت اس چیز کی ہے کہ طلباء کو پرائمری سطح سے ہی عملی کام کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں اور آنے والے دنوں میں ایک ماہر کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت کرسکیں اور ترقیٍ وطن میں غیر معمولی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ تب ہی ہم حقیقی معنوں میں تعلیم کے فوائد سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi 
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh  

Comments

Popular posts from this blog

Institute of Arts & Design فائن آرٽس_اقصيٰ نظاماڻي Aqsa Nizamani

Dr Aziz Talpur Profile

Saman- Makeup negative aspects Feature-Urdu-BS#3