Unaiza -Plastic
What was ur approved topic? Its is too general, narrow down, in term of timeline or area - localize it like in Pakistan, Sindh, Hyderabad. then give details of the narrowed down idea.
This is not feature, its article. A feature should be reporting based and info is given in interesting manner.
For an interview, profile and feature, its author's responsibility to provide foto.
Referred back, re-write in feature format and file till Sep 23.
Unaiza - Feature- BS#3- عنیزہ ذاھد
- 2k16/MC/112 - ۳ بی ایس
فیچر
سستا پلاسٹک انسانی جان پر مہنگا
کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے یہ کہاوت پلاسٹک کے وجود پر خوب جچتی ہے۔ ۱۸۶۸ میں جب نیویارک کی حکومت نے ائیوری جیسے مواد کا متبادل ایجاد کرنے والے کو دس ہزار ڈالر دینے کا اعلان کیا تو جان ویسلے نامی شخص نے اسکا حل پلاسٹک جیسے مواد کو جنم دے کر نکالا۔ چونکہ ائیوری جیسے مواد جانوروں کو شکار کر کے حاصل کیا جاتا تھا اسی لئیے پلاسٹک کی ایجاد نے تو جانوروں کو قتل ہونے سے بچا لیا لیکن آگے آنے والی زندگی کے لئیے مشکلات کھڑی کر دیں۔
پلاسٹک کی مولڈنگ یعنی ہر شکل اختیار کرنے والی خصوصیت نے لوگوں کوخوب متاثر کیاجس کی بنا پر لوگوں نے اسے اپنے روز مرہ کے استعمال میں لانا شروع کر دیا ۔رفتا رفتا اس کی اہمیت بڑھتی چلی گئی ٹی۔وی ،کمپیوٹر اور دیگر اشیاء کی بناوٹ میں اس کا استعمال عام ہونے لگا۔لیکن کہتے ہیں نہ کہ ہر چیز ایک حد تک اچھی لگتی ہے پر جب حد سے تجاوزکر جائے تو نقصاندہ بن جاتی ہے۔اسی طرح پلاسٹک کا بھی حد سے زیادہ استعمال انسانی جان پر بھاری پڑھنے لگا۔
پلاسٹک کے سستا ہونے کی وجہ سے اس کی مقبلیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور لوگ اسکے منفی پہلو پر غور کئیے بنا اسے سر پر چڑھاتے چلے گئے جن میں ہم پاکستانی بھی شامل ہیں۔
آج ہمارے ملک میں بھی پلاسٹک کا استعمال کر کے بہت سی اشیاء بنائی جا رہی ہیں ۔بازاروں میں ہر دوسرے ٹھیلے پر پلاسٹک سے بنی چیزیں سستے داموں فروخت ہو رہی ہوتی ہیں۔
پلاسٹک جہاں ایک طرف نئی چیزوں کے وسائل پیدا کر رہا ہے وہیں دوسری طرف یہ انسانوں کے لئیے ان گِنت مسائل اور بیماریوں کو بھی جنم دے رہا ہے۔پلاسٹک کا استعمال عام طور پر تھیلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ جس کی کم سے کم قیمت ۵.۱روپے ہوتی ہے ۔کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بیچنی ہو تودکانداراسے احترام کے ساتھ پلاسٹک کی تھیلی میں ڈال کر گاہک کے سپرد کر دیتا ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیوں میں کھانے پینے کی اشیاء ڈالنے سے پلاسٹک کے زہریلے اجزاء کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جو صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔عام طور پر لوگ ان تھیلیوں کا استعمال کر کے یوں ہی گلی سڑکوں پر پھنک دیتے ہیں، ہوا کے ذریعے اْڑتے اْڑتے یہ تھیلیاں نالیوں اور سیوریج کے نظام میں داخل ہوکر اسے بلاک کر دیتی ہیں۔بارشوں میں یہ مختلف جگاہوں سے ہو تے ہوئے نکاسی آب میں رکاوٹ کا بائث بنتی ہیں، اس طرح سیورج کاگندا پانی باہر سڑکوں اور گلیوں میں جمع ہو جاتا ہے اور پھر یہ ہی گندا پانی پینے کے صاف پانی کی زیر زمین پائپ لائن میں بھی شامل ہوتا رہتا ہے۔
پلاسٹک کی تھیلیوں کے علاوہ پلاسٹک سے بننے والے برتن بھی بیماری پھیلانے کے اس کھیل میں پیچھے نہیں۔جنہوں نے اپنی خوبصورتی سے لوگوں کو متاثر کر کے مٹی اور اسٹیل کے برتنوں کو مات دے دی۔خواتین پلاسٹک سے بنے برتنوں کا استعمال اس لئیے بھی کرتی ہیں کیونکہ ایک تو یہ باآسانی ٹوٹتے نہیں اور دوسرا یہ کہ ان کی قیمت شیشے کے برتنوں کی بنسبت کم ہوتی ہے۔
پلاسٹک کے برتنوں کی بناوٹ میں پولیونائل کلورائڈ نامی کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جو سرطان جیسی بیماری کا سبب بنتا ہے۔اس کے علاوہ پلاسٹک کو پائدار بنانے کے لئیے بسفینول نامی کیمیکل کااستعمال کیا جاتا ہے جو انسانوں کے ہارمونز کا توازن بگاڑنے میں ثابت ہوتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پلاسٹک سے بنی بوتلوں کے ذرات پینے کے پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو انسانی جسم میں جا کر ہمارے اعضاء کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں عام طورپر لوگ کچرے سے جان چھڑانے کے لئیے اسے جلا دیتے ہیں جس میں 222۷۸ پلاسٹک سے بنا مواد شامل ہوتا ہے جو آگ کی لپیٹ میں آتے ہی ماحول میں ایسی زہریلی گیس خارج کرتا ہے جوپھیپھڑوں کے سرطان ، دل کے امراض، عصبی مظام میں نقصانات اور دمے کی بیماری کا سبب بنتا ہے جبکہ اسکا سب سے پہلا شکار اسکو جلانے والا خود بنتا ہے۔
پلاسٹک کے منفی اثرات سامنے آنے کے بعدکئی ملکوں نے اس کے استعمال پر پابندی آئید کردی جن میں افریکہ،یورپ،امریکہ،نیوزیلنڈ اور چین شامل ہیں۔جبکہ پاکستان میں ڈولپمنٹ اتھورٹی کی جانب سے "سے نو ٹو پلاسٹک بیگ"مہم چلائی گئی جس میں دکانداروں کو پلاسٹک کی تھیلیوں کے بجائے کاغذ یا کپڑے کے تھیلے کا استعمال بتایا۔اور ساتھ ہی ساتھ بائیوڈیگریڈ ایبل نامی بیگز بھی متعارف کروائے جو مٹی میں باآسانی تحلیل ہوجاتے ہیں۔
پلاسٹک سے پیدا ہونے والی بیمارییوں کا ایک ہی حل سمجھ میں آتا ہے جس پر عمل کرنا بھی آسان ہے کہ اسکا استعمال کم سے کم
کر تے ہوئے اسکو بتدریج ختم کردیا جائے تاکہ انسان ان بیماریوں سے پاک ایک بھر پور زندگی گزار سکے۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment