Taj Hyder- Journey of Radio Pakistan
The main purpose of feature is to entertain. Hence written in interesting manner.
Feature is always reporting based i.e. Observation, primary data, talk with related people, can use secondary data, but first three things are most important
This is not feature
For feature, interview and profile writer should provide photo
تاج حیدر
رول نمبر: 2k16/MC/106
فیچر: ریڈیو پاکستان کا سفر
پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن(PBC) جہاں سے کئی فنکار,اداکار,گلوکار اور صحافیوں نے اپنے کرئیر کا آغاز کیا. مجھے بھی اس قدیم اور عظیم ادارے میں اپنے ھنر کا مظاہرا کرنے کا موقع ملا. یونیورسٹی میں ابتدائی آڈیشن سے لے کر اسٹوڈیو میں فائنل آڈیشن تک شفافیت اور باریک بینی سے انتخابات دیکھنے کو ملے.
مجھے یاد ہے جب پہلی بار میں نے ریڈیو پاکستان کے حیدرآباد اسٹیشن میں قدم رکھا, ہمارا فائنل آڈیشن تھا, اک طرف خوشی بھی تھی اور دوسری طرف ہلکی گبراہٹ سی کیفیت بھی تھی
پی.بی.سی حیدرآباد اسٹیشن کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں طرف ایک چیک پوسٹ کی مانند سیکیورٹی عملہ نافذ کیا گیا ہے جو آنے جانے والوں کی حاضری لگاتا ہے, یہاں سے ہوتے ہوئے جب آگے بڑھے تو سیدھا نظر ایک سبزازار باغ پر پڑی جو مرکزی دروازے کی دائیں طرف تھا یہ باغ نہایتی خوبصورت اور دلکش تھا جسے دیکھتے ہی طبعیت خوشگوار ہوجاتی,
اس باغ کے ٹھیک سامنے کی عمارت میں ہم داخل ہوئے یہ عمارت تمام اہم عمارت تھی کیونکہ یہاں تمام اسٹوڈیوز, پروڈیوسرز ک دفتر اور دیگر اہم عہدیداران کے دفتر تھے. ہمیں یہاں کچھ دیر انتظار کرنے کو کہہ کر ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا, یہاں داخل ہوتے ہی یوں مہسوس ہوا جیسے ہم گزرے ہوئے پرانے دور میں لوٹ چکے ہیں, برسوں پرانے لکڑی کے موٹے بڑے دروازے لیکن ان کی مظبوتی اور پائیداری ایسی کہ آج کل کے نئے قسم کے دروازوں کو مات دے دے, فرش کے کالین سے لے کر دیوار پر لگی گھڑی تک سب پرانے دور کے انداز کا تھا اور اسی طرح ہی یہاں کے کام کرنے والے بھی خاصے پرانے تھے, مشکل سے ہی چند نوجوان ہی وہاں نظر آئے لیکن جب ان پرانے لوگوں سے میری گفتگو ہوئی تو انکی خوشنما آواز, گرجتے ہوئے لہجے اور دلچسپ باتوں اور انداز نے مجھے انکا گرویدا کردیا.
یہاں کا عملہ برسوں سے اپنی آواز کے جادو سے ملک و قوم کے لئے خدمات سرانجام دیتا آرہا ہے. یہ ادارہ خاصے تجربیکار اور بہترین ھنر رکھنے والے لوگوں کا گڑھ ہے.
کچھ دیر کے انتظار کے بعد انہوں نے ہماری خدمت میں چائے پیش کی اور ہمیں بہت اچھے سے خوش آمدید کیا. یہاں کے لوگوں کو میں نے کافی خوش اخلاق اور مہمان نواز پایا.
کچھ وقت اور گزرتے ہی فائنل آڈیشن کی سکرپٹ تھمائی گئی اور ایک ایک کر کے اسٹوڈیو میں طلب کیا گیا. اسٹوڈیو میں داخل ہوتے ہی دائیں اور بائیں دونوں طرف دیواروں پر ناموَر مشھور گلوکاروں, اداکاروں, فنکاروں اور دیگر مشھور شخصیات کی تصاویر لگیں تھیں جو کسی دور میں اس اسٹوڈیو میں کام کر چکے تھے جن میں صنم ماروی, مصطفٰی قریشی, مہتاب راشدی اور دیگر مشھور شخصیات کی تصاویر بھی موجود تھیں. آگے بڑھتے ہوئے جب میری نظر مائک(Mic) کی طرف پڑی تب گبراہٹ کی کیفیت بڑھ سی گئی, یوں تو انسان اپنی موج میں با آسانی سب کر جاتا ہے لیکن مائک کی دہشت سے اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں. پھر میں ایک لمبی سانس لیتے ہوئے مائک کی طرف کرسی پر جا کر بیٹھ گیا اور بلآخر میں اس آڈیشن میں کامیاب ہوگیا اب میں بھی اس عظیم ادارے کا حصہ بن چکا تھا اور پِھر یوں میرے اس سفر کی ابتدأ ہوئی, مجھے ان ماہر فنکاروں کے اعلٰی تجربے سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا اور میں بھی چاہتا ہوں کہ آواز کی اس دنیا میں میرا بھی ایک نام ہو اور ان تصاویر کے ساتھ میری بھی تصویر ہو
Feature is always reporting based i.e. Observation, primary data, talk with related people, can use secondary data, but first three things are most important
This is not feature
For feature, interview and profile writer should provide photo
تاج حیدر
رول نمبر: 2k16/MC/106
فیچر: ریڈیو پاکستان کا سفر
پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن(PBC) جہاں سے کئی فنکار,اداکار,گلوکار اور صحافیوں نے اپنے کرئیر کا آغاز کیا. مجھے بھی اس قدیم اور عظیم ادارے میں اپنے ھنر کا مظاہرا کرنے کا موقع ملا. یونیورسٹی میں ابتدائی آڈیشن سے لے کر اسٹوڈیو میں فائنل آڈیشن تک شفافیت اور باریک بینی سے انتخابات دیکھنے کو ملے.
مجھے یاد ہے جب پہلی بار میں نے ریڈیو پاکستان کے حیدرآباد اسٹیشن میں قدم رکھا, ہمارا فائنل آڈیشن تھا, اک طرف خوشی بھی تھی اور دوسری طرف ہلکی گبراہٹ سی کیفیت بھی تھی
پی.بی.سی حیدرآباد اسٹیشن کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں طرف ایک چیک پوسٹ کی مانند سیکیورٹی عملہ نافذ کیا گیا ہے جو آنے جانے والوں کی حاضری لگاتا ہے, یہاں سے ہوتے ہوئے جب آگے بڑھے تو سیدھا نظر ایک سبزازار باغ پر پڑی جو مرکزی دروازے کی دائیں طرف تھا یہ باغ نہایتی خوبصورت اور دلکش تھا جسے دیکھتے ہی طبعیت خوشگوار ہوجاتی,
اس باغ کے ٹھیک سامنے کی عمارت میں ہم داخل ہوئے یہ عمارت تمام اہم عمارت تھی کیونکہ یہاں تمام اسٹوڈیوز, پروڈیوسرز ک دفتر اور دیگر اہم عہدیداران کے دفتر تھے. ہمیں یہاں کچھ دیر انتظار کرنے کو کہہ کر ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا, یہاں داخل ہوتے ہی یوں مہسوس ہوا جیسے ہم گزرے ہوئے پرانے دور میں لوٹ چکے ہیں, برسوں پرانے لکڑی کے موٹے بڑے دروازے لیکن ان کی مظبوتی اور پائیداری ایسی کہ آج کل کے نئے قسم کے دروازوں کو مات دے دے, فرش کے کالین سے لے کر دیوار پر لگی گھڑی تک سب پرانے دور کے انداز کا تھا اور اسی طرح ہی یہاں کے کام کرنے والے بھی خاصے پرانے تھے, مشکل سے ہی چند نوجوان ہی وہاں نظر آئے لیکن جب ان پرانے لوگوں سے میری گفتگو ہوئی تو انکی خوشنما آواز, گرجتے ہوئے لہجے اور دلچسپ باتوں اور انداز نے مجھے انکا گرویدا کردیا.
یہاں کا عملہ برسوں سے اپنی آواز کے جادو سے ملک و قوم کے لئے خدمات سرانجام دیتا آرہا ہے. یہ ادارہ خاصے تجربیکار اور بہترین ھنر رکھنے والے لوگوں کا گڑھ ہے.
کچھ دیر کے انتظار کے بعد انہوں نے ہماری خدمت میں چائے پیش کی اور ہمیں بہت اچھے سے خوش آمدید کیا. یہاں کے لوگوں کو میں نے کافی خوش اخلاق اور مہمان نواز پایا.
کچھ وقت اور گزرتے ہی فائنل آڈیشن کی سکرپٹ تھمائی گئی اور ایک ایک کر کے اسٹوڈیو میں طلب کیا گیا. اسٹوڈیو میں داخل ہوتے ہی دائیں اور بائیں دونوں طرف دیواروں پر ناموَر مشھور گلوکاروں, اداکاروں, فنکاروں اور دیگر مشھور شخصیات کی تصاویر لگیں تھیں جو کسی دور میں اس اسٹوڈیو میں کام کر چکے تھے جن میں صنم ماروی, مصطفٰی قریشی, مہتاب راشدی اور دیگر مشھور شخصیات کی تصاویر بھی موجود تھیں. آگے بڑھتے ہوئے جب میری نظر مائک(Mic) کی طرف پڑی تب گبراہٹ کی کیفیت بڑھ سی گئی, یوں تو انسان اپنی موج میں با آسانی سب کر جاتا ہے لیکن مائک کی دہشت سے اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں. پھر میں ایک لمبی سانس لیتے ہوئے مائک کی طرف کرسی پر جا کر بیٹھ گیا اور بلآخر میں اس آڈیشن میں کامیاب ہوگیا اب میں بھی اس عظیم ادارے کا حصہ بن چکا تھا اور پِھر یوں میرے اس سفر کی ابتدأ ہوئی, مجھے ان ماہر فنکاروں کے اعلٰی تجربے سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا اور میں بھی چاہتا ہوں کہ آواز کی اس دنیا میں میرا بھی ایک نام ہو اور ان تصاویر کے ساتھ میری بھی تصویر ہو
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
.
Comments
Post a Comment