Noorulain- Hyderabad sewerage and canals
Now data is availbale on net.
An Article is to analsye, interpret, explain or argue anything. It should have relevancy, thought, figures and facts, conclusion. It should carry reference of some report etc.
Write with arguments like preparing a case.
Referred back, Refile till Sept 23
Hyderabad sewerage and canals
نورالعین انصاری
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر: 80
آرٹیکل: حیدرآباد میں نہروں کی گندگی
نہر پانی کے اس مصنوعی راستے کو کہا جاتا ہے جو دریاؤں، بندوں یا چشموں سے انسانی آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح شہرحیدرآبادمیں بھی دریائے سندھ سے کئی نہریں نکالی گئیں جن کا مقصد شہریوں کو صاف اور پینے کے قابل پانی فراہم کرنا تھا، لیکن متعلقہ حکام کی نااہلی اورعدم توجہ کے باعث یہ نہریں گندگی کا گڑھ اور سیوریج کے گندے پانی کی نکاسی کا ایک راستہ بن کے رہ گئی ہیں۔
Nananymous source not acceptable. Name survey report, and when it was conducted?
ایک سروے کے مطابق پھلیلی،چینل موری،گھانگراموری و شہرکی دیگر نہروں میں کئی سالوں سے گندہ اوراستعمال شدہ پانی چھوڑا جا رہا ہے، جبکہ شہر کے واحد مذبح خانے کا فضلااور خون سمیت گندہ پانی پھلیلی نہر میں ڈالا جارہا ہے، جو کے صاف اور پنیے کے پانی میں اس طرح شامل ہو رہا ہے جیسے پہاڑکے اپر سے تیزی کے ساتھ بہتا ہواچشمہ ہو ، اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آخر کیوں شہری پانی پی کرکینسرجیسے جان لیوا امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ااور شہر میں کینسر جیسے وبائی امراض کیو پھٹ رہے ہیں ،
Muslim Hani is judge he should be written with his title name i.e Justice Muslim Hani
تاہم اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر واٹر کمیشن کے سربراہ امیر مسلم ہانی نے حیدرآباد کی نہروں کا کئی بار دورہ کیا اور واسا ، ایری گیشن ودیگر انظامیہ کو بار بار سیوریج کے پانی کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے احکامات بھی جاری کرے ۔ مگر انظامیہ نے واٹر کمشینر کے احکامات ہوا میں اڑا دیے اور واٹر کمشینر کے بار بار احکامات جاری کیے جانے کے باوجود انظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔تاہم ابھی تک نہروں میں گندگی اور غلاظت ڈالنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ شہر کا گندہ اور استعمال شدہ پانی پینے کے پانی میں ملا کر انسانی جانوں سے خیلا جا رہا ہے،یہ بات واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر قائم عدالتی کمیشن نے حیدرآباد میں پینے کے لیے فراہم کئے جانے والے پانی کے معیار کو ناقص قرار دے دیا ہے ۔لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود شہری انتظامیہ خواب خرگوش میں مشغول ہے۔
Delete extra words
اگر بات کی جائے نہروں کی صفائی کی تومحکمہ آبپاشی سندھ کی جانب سے نہروں کی سالانہ صفائی اور مرمت کے لیے کروڑوں روپے تو حاصل کرتی ہے مگر نہروں کا حال دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ ان کی سالانہ صفائی ہوتی ہے۔اگر حاصل کردہ رکم کا 20 فیصد بھی لگایا جاتا تو آج یہ صورتحال نہیں ہوتی۔ نہر وں میں جمع کچرہ،غلاظت وآلائشیوں نے نہروں میں 30 سے35 فیصد جگہ اپنے نام کرلی ہے جس کے باعث پانی کے لیے جگہ دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور اگرانظامیہ کی جانب سے جلد اس طرف نظر نہیں کی گئی تو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے نہر یں ایک گندے نالے کی مانندرہ جائیں گی، اور جس طرح آج ہم پینے کا پانی گیلنوں میں خریدنے پر مجبور ہیں اسی طرح ہماری آنے والی نسلیں کیپسول کی شکل میں پانی حاصل کریں گی اور رفتہ رفتہ وہ بھی نہیں رہے گا۔
نہر کی صفائی اور پینے کے لیے صاف پانی شہر کے لیے ایک ایسا مسئلہ بن گیا جس کو حل کرنے کے لیے واسا ،محکمہ ایری گیشن اور محکمہ آبپاشی کے حکام و افسران کو ایک ساتھ مل کر دن رات کام کرنا پڑے گا،اور نہ ہی صرف افسران کو بلکہ شہریوں کو بھی ان کے ساتھ معاونت کرنی پڑے گی کیونکہ دیکھا جائے تو نہروں کو حال زبوں تک پہنچانے میں عوام نے بھی کافی حد تک اپنا منفی کردار ادا کیا ہے ،اگر عوام چہاتی ہے کہ ان کی آنے والی نسلوں تک یہ نعمت صحیح طرح پہنچ جائے تو انہیں نہروں میں کچرہ وغلاظت پہنکنے سے اجتناب کرنا پڑے گا۔جب جا کر کوئی مثبت صورتحال نکلتی ہوئی نظر آئی گی۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment