Haseeb Deswali - Profiteers and religious celeberations - Urdu- BS3
Delete words marked in this colour
The intro is too long make it crispy
Can u update it so we can publish it after many days of Eid
The intro is too long make it crispy
Can u update it so we can publish it after many days of Eid
Haseeb Deswali - Profiteers and religious celeberations - Urdu- BS3
حسیب دیسوالی
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر: 55
63فیچر: قبل از تہوار: گراں فروش کی من مانیاں
عیدالفطر کا موقع ہو یا دیوالی کا تہوار،عیدالاضحٰی کا دن ہویا ہولی کاجشن گویا مذہبی خوشیاں ہو یہ دنیاوی تہوار ، ہرروز مسرت سے قبل آپ سب کو ایک چیز یکساں نظر آئے گی، وہ ہے گراں فروشی کا بے قابو جن،جی ہاں میں بات کر رہا ہوں ان اضافی قیمتوں کی جوگراں فروش عام دنوں کے بھاؤ سے بڑھاکر ہر چیز میں وصول کرتے ہیں۔اوراس دوران اگر کوئی گاہک مہنگے سامان ہونے کا غلطی سے اعتراض کردے تو بس اسے اس طرح بے عزت کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ شخص دکاندارکی بریانی میں سے آخری بوٹی کھا گیاہو۔
یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے تہوار کے دن قریب آنے لگتے ہیں دکانداروں اور خریداروں میں تو تو میں میں بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
بقول اسامہ نامی شخص کہ کوئی بھی تہوار ہو ، وہ پندرہ دن قبل ہی اپنی ساری تیاریاں مکمل کر لیتے ہیں ، چاہے وہ مرچ، مصالہ ،سبزی،گوشت وغیرہ ہو یازیب تن کرنے کے لیے لباس۔ جب میں نے ان سے یہ اس چیز کی وجہ جاننا چاہی تو ان کا کہنا تھا ، انہیں اپنی بیوی سے بھی زیادہ ڈر گراں فروش مافیا سے لگتا ہے جو آخر کے دنوں میں سرگرم ہو جاتی ہے، اور نا صرف زیادہ پیسے وصول کرتی ہے بلکہ سامان کی معیار بھی گرا دیتے ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو پھل فروش ہوں یاسبزی بیچنے والے ،گوشت بیچ رہے ہوں یاکپڑے سب بس تہواروں کی ہی راہ دیکھتے رہتے ہیں حیتٰی کہ ایک نیا گروں اور نکل کر سا منے آیا ہے جو عوام کو آزادی کے دن کی آڑ میں لوٹ رہا ہیں جی میں بات کر رہا ہو ان چھوٹے چھوٹے اسٹولز کی جو گلی شاہراہوں پر لگے ہوتے ہیں یہ بولنے میں تو اسٹولز اور سامنان بیچنے میں دکانداروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہر گلی شاہراہ پر آپ کو آزادی کے دن ایسے تین سے چار اسٹولزضرور نظر آئیں گے ۔
جب میں نے ایک ستر سالہ چا چا سے یے معلوم کرنا چا ہاکہ آخر یے مافیا کب سے سر گرم ہے، تو ان کے چہرے کے تاثرات کچھ اس طرح کے تھے ۔ جیسے میں نے کئی سالوں سے ان کے دل و دماغ میں موجود کسی پریشانی کا ذکر چھیڑ دیا ہو۔ بقول محترم کے یہ کارواں ان کی پیدائش سے بھی پہلے سے چلتا آ رہا ہے، بلکہ انہیں لگتا ہے کہ دنیا میں کاروبار بعد میں گراں فروش پہلے آگئیں تھے۔انکا تنقید بھرے انداز میں کہنا تھا کہ یہ لوگ گاہک کو اپنی محبت بھری باتوں میں اس طرح الجھاتے ہیں ، کہ گاہک نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے سامان خرید کر لے جاتااور جب گھر جا کر جیب اور سامان کو دیکھتا ہے تو ان کی انکھیں نم ہوجاتی ہیں ۔
اس بارے میں اظہر نامی دکاندار کا کہنا تھا کہ وہ گراں فروش نہیں مگر تہواروں میں زیادہ پیسے وصول کرنا انکا حق بنتا ہے کیونکہ تہوار کے دوران حاصل ہونے والے منافعے سے وہ سال بھر میں ہونے والے خرشے نکالتے ہیں عام دنوں میں گاہک کا بازار کی طرف اتنا رجحان نہیں ہوتا جتنا تہواروں میں ،جبکہ پورے سال کا چہ اتنا ہی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ ہر چیز کو دیکھ کر چلتے ہیں اور تہواروں کے دوران ان کے دکان کے خرچے بھی بڑھ جاتے ہیں جس میں کوئی مال خراب آنے کا نقصان اور چوری ہونے کا نقصان کیونکہ سامان زیادہ تعداد میں لینے کی وجہ سے دوہی جیزیں ہر سال ہوتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دکان پر رکھے گئے ملازموں کی تنخوان بھی تہوار پر بڑا کر دینے پڑھتی ہے ان تمام تر چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ پیسے بڑھا کر سامان بیچتے ہیں۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment