Maqsood Ahmed Lodhi Profile by Unaiza- II
Maqsood Ahmed Lodhi Revised Profile- Unaiza
نام:عنیزہ زاہد
نام:عنیزہ زاہد
جماعت:BS PART 3
رول نمبر 2K16\MC\112:
مقصود احمد خان لودھی
انسان جب اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو وو اس بات سے قطعئی نا واقف ہوتا ہے کہ آگے جا کر زندگی کس طرح اسکا امتحان لے گی اور کیا وہ ان امتحانات کو اچھے سے عبور بھی کر سکے گا یا نہیں کیونکہ دنیا سبق دے کے امتحان نہیں لیتی بلکہ امتحان لے کے سبق دیتی ہے۔
کچھ ایسے ہی امتحانات کو پار کرتے ہوئے مقصود احمد خان لودھی صاحب آج ریڈیو پاکستان کے ادارے میں بطور سب براڈکاسٹنگ انجینئرکے عہدے پر فائز ہوئے۔جنہوں نے اس عمری میں کام کرنا شروع کیا جس میں ایک بالغ ہوتا ذہن اپنے مستقبل کی تاریں کامیابی سے جوڑنے کے منصوبے میں جْٹا ہوا ہوتا ہے۔
اس بات کو پھر والدین کی فرما برداری کہیں یا ذمہ داری کا احساس کہ مقصود صاحب ۱۲ سال کی عمر سے والد کا بوجھ بانٹنے کے لئیے گھر سے چل پڑے ۔والدین کی رضا میں ﷲ کی رضا جانتے ہوئے ہر اس چھوٹے بڑے کام میں ہاتھ ڈالا جو چار پیسے کمانے کا ذریعہ بن سکتا تھا۔
بجلی کی کاریگری کا کام تو وہ پہلے سے ہی جانتے تھے اسی لیئے اس ہنر کو بھی ذریعہِ کمائی بنا دیا اس کے علاوہ چوڑیاں بنانا ،قرائے کی گاڑی چلانا، جوتوں کی دکان پر کام کرنا ان سب کاموں سے بھی تھوڑابہت کماتے رہے۔
ہنر مند اور باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پڑھائی کے معاملے میں بھی کافی ذہین تھے انھوں نے گورنمنٹ سکول سے پوزیشن کے ساتھ میٹرک پاس کیا، پوزیشن حاصل کرنے پر سکول کی جانب سے عزازی طور پر ان کی تصویر سکول کی دیوار پر لگائی گئی۔
پڑھائی کے اس سلسلے کو اس روز بریک لگا جب ان کے والد منصور احمد خان لودھی کی تبیعت میں ناسازگی آئی۔ والد الیکٹریکل ڈپلومہ انسٹیٹیوٹ میں کافی عرصہ پڑھانے کے بعد ریٹائر ہو چکے تھے،آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کی وجہ سے گھر کی ذمہ داریاں ان پر آن پڑیں جنہیں انھوں نے اپنا فرض سمجھ کر قبول کیا اور ہر ممکن کوشش کرکے انھیں پورا کیا۔
اوروں کی طرح وو بھی اپنی زندگی کا مقصد ترقی چاہتے تھے اعلی تعلیم حاصل کر کے آِگے بڑھنا چاہتے تھے مگر آڑے آئی تو تنگ دستی جس نے کتابوں تک کو لاحاصل بنا دیا تھا ۔لیکن قدرت بھی یوں ہی کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتی والدین کی فرمانبرداری و احساس کے بدلے قدرت نے انھیں آج ایک بہترین مقام پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں محتاجی اور تنگ دستی دور دور تک بھٹکتی نظر نہیں آتی۔
والد صاحب کی طبعیت بہتر ہوتے ہی ان ہی کے کہنے پر گورنمنٹ کالج وزیر علی سے۲سال کا الیکٹریکل ڈپلومہ کیا۔وہاں سے ملنے والے پیسوں کو جمع کر کے کالج میں داخلہ لیا اور اپنی پڑھائی کا دوبارہ سے آغاز کیا۔
مقصود صاحب کالج کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک ڈپلومہ بھی جاری رکھے ہوئے تھا جس کے مکمل ہوتے ہی انھوں نے ریڈیو پاکستان میں نوکری کے لئیے درخواست دائر کر دی تھی اور خوش قسمتی سے اْن کے ہنر کے طفیل اْنہیں میرٹ کی بنیاد پر نوکری مل گئی۔وہ کہتے ہیں نہ کہ ﷲ محنت کا پھل ضرور دیتا ہے کچھ اسی طرح ریڈیو پاکستان میں ملنے والی نوکری کئی سفارشوں کے باوجود ان کے نصیب میں لکھی گئی۔نوکری ملنے کے بعد بڑی بہن کی شادی کے اخراجات اْٹھائے اور چند سال بعد گھر والوں کے کہنے پر اپنا گھر بھی بسا لیا۔
شادی کے چند سال بعد بیوی کے ہمراہ زْبیر نامی سکول کھولاجو صرف ۱تا ۸ جماعت پر مبنی تھا جس کی ہیڈ ماسٹر اْنکی بیوی تھیں جبکہ پرنسپل وہ خود تھے۔آہستہ آہستہ زندگی محرومیوں سے باہر آنے لگی اور حالات بہتر ہونے لگے۔مقصود صاحب نے اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد سکول کا نام تبدیل کر کے ان ہی کے نام یعنی سعودحسن ہائی سکول رکھ دیا اور سکول کو ۸ جماعت کے بجائے۱۰جماعت پر مشتمل کردیا گیا۔جہاں آج کافی تعداد میں بچے زیِرِ تعلیم ہیں۔
ایک بڑے بھائی کی ذمہ داری بہترین طریقے سے سر انجام دے کراب وہ ایک والد کا کردار بھی باخوبی نبھا رہے ہیں۔اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوا رہے ہیں اور انکی ہر جائز خواہش کو بھی پورا کر رہے ہیں۔
انھوں نے نہ صرف بڑے بھائی ہونے کی ذمہ داری بہترین طریقے سے انجام دے بلکہ وہ ایک مثالی باپ کا کردار بھی باخوبی نبھا رہے ہیں۔اپنے بچوں کو اعلی تعلیم سے
فیضیاب کر کے انھیں بہتر انسان بنا رہے ہیں
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment