Maqsood Ahmed Khan Lodhi Profile- by Unaiza
See what a profile is. Refer my lecture and sample profiles posted on group.
This should be reporting based.
Referred back. file it again till Sep 23.
Foto??
Maqsood Ahmed Khan Lodhi Profile by Unaiza- BS3 Urdu
نام:عنیزہ زاہد
جماعت:BS PART 3
رول نمبر 2K16\MC\112:
مقصود احمد خان لودھی
انسان جب اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو وو اس بات سے قطعئی نا واقف ہوتا ہے کہ آگے جا کر زندگی کس طرح اسکا امتحان لے گی اور کیا وہ ان امتحانات کو اچھے سے عبور بھی کر سکے گا یا نہیں۔اسی بنا پر ایک عام آدمی کی زندگی ایسے کننٹرول روم کی نسبت ہو جاتی ہے جس میں اسے چاک و چوبند رہ کر سب کچھ بہترین طریقے سے سمبھالنا ہوتا ہے کیونکہ ایک غلط بٹن کے دبانے پر معاملہ آپے سے باہر بھی ہوسکتا ہے۔
کچھ ایسے ہی امتحانات کو پار کرتے ہوئے مقصود احمد خان لودھی صاحب آج ریڈیو پاکستان کے ادارے میں بطور سب براڈکاسٹنگ انجینئرکے عہدے پر فائز ہوئے۔انکے والد منصور احمد خان لودھی الیکٹریکل ڈپلومہ انسٹیٹیوٹ میں کافی عرصہ پڑھانے کے بعد ریٹائر ہو چکے تھے۔اس دوران مقصود صاحب نے گورنمنٹ سکول سے پوزیشن کے ساتھ میٹرک پاس کیا ہی تھا کہ والد صاحب کی طبعیت ناساز ہوگئی۔پوزیشن حاصل کرنے پر سکول کی جانب سے عزازی طور پر ان کی تصویر سکول کی دیوار پر لگائی گئی۔
آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کی وجہ سے گھر کی ذمہ داریاں ان پر آن پڑیں اور پھر یوں ۱۴ برس کی عمر میں گھر سے کمانے کے لئیے چل دئیے۔
پیسوں کی تنگی کے باعث پڑھائی جاری نہ رکھ سکے اور تقریبا ۲ سال تک ہر چھوٹا موٹا کام کیا جیسے کہ چوڑیاں بنانا ،قرائے کی گاڑی چلانا، جوتوں کی دکان پر کام کرنا کسی کام سے نہ ہچکچائے۔ان کاموں سے جو پیسے آتے وہ والدہ کے ہاتھوں میں رکھ دیتے جس سے گھر کے اخراجات پورے ہوتے۔والد صاحب کو انکا بہت احساس تھا کہ اتنی کم عمری میں بیٹا گھر کی ذمہ داریوں کو خوب سمجھ رہا ہے جس کی وجہ سے مقصود صاحب والد کے دل کے قریب ہو گئے۔
والد صاحب کی طبعیت بہتر ہونے کے بعد ان ہی کے کہنے پر گورنمنٹ کالج وزیر علی سے۲سال کا الیکٹریکل ڈپلومہ کیا۔وہاں سے ملنے والے پیسوں کو جمع کر کے کالج میں داخلہ لیا اور اپنی پڑھائی کا دوبارہ سے آغاز کیا۔
اب زندگی ایک ہی پچ پر چل رہی تھی مقصود صاحب کالج کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک ڈپلومہ بھی کر رہے تھے جس کے مکمل ہونے پر ریڈیو پاکستان میں نوکری کے لئیے درخواست دائر کی اور خوش قسمتی سے اْن کے ہنر کے طفیل اْنہیں میرٹ کی بنیاد پر نوکری مل گئی۔وہ کہتے ہیں نہ کہ ﷲ محنت کا پھل ضرور دیتا ہے کچھ اسی طرح ریڈیو پاکستان میں ملنے والی نوکری کئی سفارشوں کے باوجود ان کے نصیب میں لکھی گئی۔نوکری ملنے کے بعد بڑی بہن کی شادی کے اخراجات اْٹھائے اور چند سال بعد گھر والوں کے کہنے پر اپنا گھر بھی بسا لیا۔
شادی کے چند سال بعد بیوی کے ہمراہ زْبیر نامی سکول کھولاجو صرف ۱تا ۸ جماعت پر مبنی تھا جس کی ہیڈ ماسٹر اْنکی بیوی تھیں جبکہ پرنسپل وہ خود تھے۔آہستہ آہستہ زندگی محرومیوں سے باہر آنے لگی اور حالات بہتر ہونے لگے۔مقصود صاحب نے اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد سکول کا نام تبدیل کر کے ان ہی کے نام یعنی سعودحسن ہائی سکول رکھ دیا اور سکول کو ۸ جماعت کے بجائے۱۰جماعت پر مشتمل کردیا گیا۔جہاں آج کافی تعداد میں بچے زیِرِ تعلیم ہیں۔
ایک بڑے بھائی کی ذمہ داری بہترین طریقے سے سر انجام دے کراب وہ ایک والد کا کردار بھی باخوبی نبھا رہے ہیں۔اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوا رہے ہیں اور انکی ہر جائز خواہش کو بھی پورا کر رہے ہیں۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment