Shakeel Ahmed Khan profile -Rabia Wahid
Observe paragraphing
Shakeel Ahmed Khan profile by Rabia Wahid
نام:ربیعہ واحد
رول نمبر:۲کے۱۶۔ایم سی۔۱۴۰
کلا س:بی ایس۔پا ر ٹ ۳
شکیل احمد خان
کہا جاتا ہے کے شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا لیکن اگر وہ شوق علم سے وابستہ ہو تو وہ آپ کو انمول بنا دیتا ہے دنیا میں کئی لوگوں نے اپنے قلم کے ذریعے بہت سے میدان فتح کیے ہیں ۔جسکی بہترین مثال ڈاکٹر علامہ اقبال ہیں جنھوں نے یہ ثابت کر کے دیکھایا تھا کے اپنے قلم کو اپنی طاقت بنا کرغیر ملکی لوگوں سے کئی جنگیں کیں اور مسلمانوں کے حالات بدل ڈالے۔راوں دور میں ایسی ہی ایک اہم صحافی شخصیت جو اپنے آپ میں ایک نام اور انچا مقام رکھتی ہے جس نے کبھی زندگی میں ہار نہ ما نی ہر مشکل میں ہمیشہ ثابت قدم رہے اور ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا۔ شکیل احمد خان صحافت کا ایک جانا مانا نام جس نے اپنی زندگی کے (۴۰) سال صحافت کے پیش نظر کر دئیے ۔آپ(۱۹۴۴)میں انڈیا کے ایک ضلع جوتپور میں پیدا ہوئے آپ کے والد جوتپور ریلوے اسٹیشن میں ملازم تھے جس کی بنا پر آپ کو وہیں ایک کمرے کاکو ا ٹر ملا ہوا تھا آپ وہاں اپنے والدہ،والد،بہن اور بھائیوں کے ہمرا ہ مقین تھے۔۱۹۴۷کی جنگ آزادی کے موقعے پردیگر لوگوں کی طرح آپ بھی پاکستان ہجرت کرکے آگئے شروعات میں کئی مشکلات کا سامنا کیا غربت کا عالم بھی تھا لیکن پڑھائی لکھا ئی کا جنون بھی ساتھ تھا اسلیے ایک گو رنمٹ اسکول سے میٹرک اور انٹر پاس کیا۔ اور اس کے بعد اپنے استاد کے کہنے پر جیسے تیسے پیسے جوڑ کر لائبریری سانئس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔ آپ کو بچپن سے ہی لکھنے کا بہت شوق تھا آپ نے اپنی تحریروں کا باقائدہ آغاز مراسلوں سے کیا جن میں (جنگ،جسارت،نوائے وقت ) شامل ہیں۔اسی شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۹۷۰آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خد کی ایک تنظیم المشرق سوشل اینڈ ایجوکیشنل ویلفئیر سوسائٹی کے نام سے بنیادرکھی جس میں آپ لوگوں کے مسائلوں پر کام کرتے اور ان شکایات کو اپنی تحریروں کے زریعے اعلی افسران تک پہنچاتے۔آپ کو بچپن سے ہی فٹبال کھیلنے کا بے حد شوق تھا آپنے اپنے شوق پر ہی سندھ لیول پرکئی بار فٹبال میچز کھیلے اور کھیل کے میدانوں میں بھی اپنا لوہامنوایا۔آپ کی قابلیت کو یکھتے ہوئے آپ کو ایک پرا یؤ یٹ کمپنی میں ملازمت مل گئی اور ساتھ ساتھ لکھتے بھی رہے چوں کہ کھیلوں سے دلچسپی تھی اس لیے ۱۹۷۹ میں فری لانسر کے طور پر ہفتہ وار جنگ میں اسپورٹس رپوٹر کی حثیت سے کام کیااور پھر کامیابی کی سیڑ ھیاں چڑھتے ہوئے ماھنامہ کھیل کی دنیا کے بیورو چیف مقرر کردیئے گئے یہ آپ کی زندگی کی پہلی کامیابی تھی جس نے صحافت کی دنیا میں آپ کے قدم اور مضبوط کردئیے۔ ۱۹۸۱میں آپ نے باقائدہ طورپرصحافت کی ڈگری حاصل کری۔ لوگ آپ کی تحریروں سے متعاصر ہو کر آپسے اپنے اخبارات میں لکھوایا کرتے تھے ۔جلن اور حسد کرنے والے لوگ تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں توکچھ آپ کے ساتھ بھی ایساہی ہوا آپ کی کامیابی کو دیکھ کر لوگ آپ سے جلنے لگے آپ کے خلاف سازشیں بھی کیں گئیںیہاں تک کے آپ پر دو بار حملہ بھی کیا گیا لیکن وہی بات کے جیسے اللہ رکھے اسے کون چکھے اس سب کے باوجود بھی آپ پیچھے نہ ہٹے اور قلم کو اپنا ہتھیار بنا کر چلتے رہے اور کئی موضوعات پر لکھتے رہے جن میں سیاسی،سماجی،ادبی ،اسپورٹس اور کئی فنی سنعتوں پر اپنے جوہر کا مظاہر ہ کیا اور ساتھ ہی اپنی ایک کتاب لکھی جس میں معروف شخصیات کے انٹر ویو شایع کیے۔ آ پ کی اس تگ و دوکو دیکھتے ہوے ۱۹۸۵ میں حیدرآباد یونین اوف جرنلیسٹ کی جانب سے آپ کوہاں کا خزانچی مقرر کردیا گیا۔ ترقیوں کا سفر ابھی یہاں روکا نہیں تھا آپ کی لگن جستجواس سفر کو اور آگے لے گئی آپ نے ماھنامہ بینکاری میں کراچی ڈویژن کی نمائند گی بھی کی اور ہفت روزہ معیار کے معیار پر بھی پورا کھرے ا ترے ۱۹۸۸ میں وہاں حیدرآباد سٹی رپورٹر کی حثیت کے اپنے فرائض بخوبی سر انجام دئیے۔کئی عرصہ آ پ پریس کلب کے ممبر بھی رہے لیکن دشمنوں کے چلتے آپ پر پھر وار کیا گیا اور آپ کی ممبر شپ ختم کردی گئی ۔ لیکن کہتے ہیں نہ کہ علم کی محبت کبھی دغا نہیں دیتی اور وقت نے یہ ثابت کر کے دیکھایا قلم کی محبت ،لکھنے کے ہنر نے آپ کو بیٹھنے نہ دیا اور نہ ہاتھوں کو رکنے دیاغر ض آپ کی ساری زندگی علمی سفر میں گزری ملازمت سے ر یٹائرمنٹ کے بعد آپنے ۲۰۰۶ میں اپنے ہنر کو دیکھتے ہوئے (ہنر)کے نام سے اپنا ایک رسالہ شروع کیا جو آج بھی جاری و سازی ہے اور آپ اس کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں آج اپکی عمر ۷۳ برس ہوگئی ہے لیکن آج بھی جب آپ قلم اٹھاتے ہیں تو آپ اسی جنون اور دلگی سے کاغذ پر لفظوں کے پھول بکھیر دیتے ہیںآپ ایک صحافی رائٹر، ایڈیٹر،مصنف اور پر کشیش شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ نیک دل اور محمان نواز انساں ہیں۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment