Shakeel Asghar Profile-by Mannum
Shakeel Asghar Profile
by Mannum- BS#3- Urdu
by Mannum- BS#3- Urdu
نام :سیدہ منعم زہرہ عابدی
رول نمبر:۱۴۶۔بی ایس
پروفائل:ہیڈماسٹر شکیل اصغر
کہتے ہیں دو پیاسے کبھی سیراب نہیں ہوتے ایک حسد کا اور ایک علم کا۔ شکیل اصغر کا شمار دوسرے قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے زمانہء کمسنی سے گھر کے دگرگوں حالات کا سامنا کیا ان کے والد امجد نواب سرکاری اسکول میں بطور پرائمری اسکول ٹیچر تھے۔ کثیر التعدادخانہ داری اور بہن کی شادی کے قرضے کی ادائیگی کے سبب شکیل اصغر کو اپنی تعلیم پانچویں جماعت سے چھوڑنی پڑی کیونکہ ایک کفیل کے ذریعے گھریلو اخراجات پورے کرنا اور قرض کی ادائیگی بہت مشکل ہوگیا تھا ۔سو ان کے والد نے انہیں قالین بننے کا ہنر سکھایا تاکہ قالین بننے کے ذریعے وہ اپنی کمائی سے ان کا سہارا بنیں۔
سن۱۹۷۸ میں معاشی حالات کچھ بہتر ہونے کے بعد والد نے ان کا داخلہ نویں جماعت میں الراضی اسکول میں کروایاجہاں سے انہوں نے پانچویں جماعت پڑھی تھی۔ہیڈ ماسٹر الراضی اسکول رفیق خانزادہ حیران تھے کے اتنے پریشان کن حالات کے باوجود تعلیم سے لگن کم نہ ہوئی اور وہ حقیقتاً نویں جماعت کے طالبعلم کے معیار پر پورے اترے ۔ میٹرک اچھے گریڈز سے پاس کیااور انٹر میں داخلہ لے کے قالین سے دوستی چھوڑ کر ٹیوشنزدے کے گھرکو مالی سہارا دیا۔میڈیکل یونیورسٹی میں جانا آپ کی خواہش تھی پر ٹیوشنز پہ زیادہ اور پڑھائی پر کم توجہ دینے کے سبب گریڈز اچھے نہ آپائے اور یہ خواہش دم توڑ گئی لیکن اگر شوق حصولِ علم ہو تو رکنے کا کوئی جواز نہیں گورنمنٹ کالج سے بی۔ایس سی میں ایڈمیشن لیا اور تعلیم کا عمل جاری رکھا۔
بی ایس سی مکمل ہونے کے بعد اخبار میں آئی ہر پوسٹ پر اپلائی کرنا مشغلہ بن گیا تھا۔ ایچ ایس ٹی(ہائر اسکول ٹیچر) کا ٹیسٹ پاس کیا اور نوکری پر مامور ہوئے ایک سال بعد پاک بحریہ کے رزرو کمیشن کے ٹیسٹ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ طے کیا کہ پاک بحریہ جوائن کریں گے اور ایچ ایس ٹی کی پوسٹ بھی رکھیں گے۔ سو جیسا سوچا ویسا ہی کیا ایک سال کی ٹرینگ مکمل کرتے ہی کسی وجہ سے پاک بحریہ کے لانگ کمیشن اور رزرو کمیشن کے افسران میں لڑائی ہوگئی ۔ آگے پیش پیش رہنے کی خوبی کی وجہ سے آپ رزرو کمیشن افسران میں بھی نمایاں تھے اور اس لڑائی میں بھی جو آپ کو لے ڈوبی اور آپ فارغ کر دیئے گئے۔
واپس آ کے بنا کوئی وقت ضائع کئے ایچ ایس ٹی کی پوسٹ پر دوبارہ براجمان ہوئے اور مرحلہ دشواری یہ پیش آیا کہ پوسٹنگ مٹیاری کے خیبر اسکول میں ہوئی جسے دو تین ماہ کی کوشش کے بعد حیدرآباد منتقل کرالیا۔ تھوڑاوقت گزرا ہی کے آرمی میں بطور ایجوکیشنل انسٹرکٹرپہ آئی پوسٹ پر اپلائی کیا اور امتحان میں کامیاب قرار پائے۔ یہ پوسٹ ان کے شوق علم و تعلم کے مطابق تھی اگرچہ قدرت کو کچھ اور منظور تھا ۔اپنی والدہ کی طبیعت خرابی کی وجہ سے کراچی سے بن بتائے حیدرآباد آجانے پر ان کے لئے سگنل جاری کر دئیے گئے کہ :ہی از ڈیزرٹڈ!
آج کے دورمیں نوجوان فورسز میں بھرتی ہونے کے شدید خواہشمند ہوتے ہیں لیکن شکیل اصغر جیسے پسماندہ بیک گراؤنڈکے لڑکے کیلئے یہ اس دوران غنیمت سے کم نہ تھا۔ جس کی زندگی زیادہ تر مسائل میں گزری اور معاشی سپورٹ بھی موجود نہیں پر ان کی ذہانت کی بدولت پاک فورسز کے اچھے رینکز کی جاب ان کے ہاتھ میں ہی تھی اور ان کے ہاتھ سے ہی گئی لیکن اس پر انہیں کوئی پچھتاوا نہیں۔بقول ان کے مشکل محسوس ہوتی تھی ایک جگہ سے ہٹ کے دوسری جگی ایڈجسٹ ہونے میں لیکن زندگی میں کبھی پچھتاوا کیا کیا ہی نہیں۔ اگر پچھتاوے کو زندگی میں زیادہ دیر رکھتا تو ماضی سے کبھی آگے نہیں نکل سکتا تھا۔
مجھے تعجب ہوا یہ جان کے کہ ان کی زندگی میں فراغت کا کوئی لمحہ نصییب ہوتا تو وہ کیا کِیا کرتے جس پر انہوں نے بتایا کبھی فراغت کا موقع ملا ہی نہیں بچے چھوٹی عمر میں کھیل کود اور سائیکلنگ کرتے ہیں اور ہم قالین کے پھندے کاٹتے تھے ۔جوانی میں بھی کوئی سوشل لائف نصیب نہیں ہوئی۔ گھر میں بڑے ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سنجیدہ مزاج رہا ۔ دماغ میں بس یہی ہوتا تھا کہ جو قرضہ بہن کی شادی کیلئے لیا ہے اسے ادا کرنا ہے۔زندگی میں اگر کہیں چھوٹا سا ملال ہے بھی تو وہ سائکلنگ نہ کرنے کا جس وجہ سے مجھے آج میں بائیک کی تعلیم سے محروم ہوں۔ خیر یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ۔آج جب ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو لگتا ہے کہ سمجھ آتی ہے کہ میری طبیعت حاکمانہ مزاج کی تھی جس وجہ سے میں کسی کے طابع یس سر یس سر کہہ نہیں سکتا تھااور ایجوکیشن سیکٹر کے علاوہ کہیں ٹک نہیں پایا۔آج شکیل اصغرسیٹ کمال ہائی اسکول میں بی پی ایس بائیس گریڈ افسر بطور ہیڈماسٹر فرائز انجام دے رہے ہیں۔
رول نمبر:۱۴۶۔بی ایس
پروفائل:ہیڈماسٹر شکیل اصغر
کہتے ہیں دو پیاسے کبھی سیراب نہیں ہوتے ایک حسد کا اور ایک علم کا۔ شکیل اصغر کا شمار دوسرے قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے زمانہء کمسنی سے گھر کے دگرگوں حالات کا سامنا کیا ان کے والد امجد نواب سرکاری اسکول میں بطور پرائمری اسکول ٹیچر تھے۔ کثیر التعدادخانہ داری اور بہن کی شادی کے قرضے کی ادائیگی کے سبب شکیل اصغر کو اپنی تعلیم پانچویں جماعت سے چھوڑنی پڑی کیونکہ ایک کفیل کے ذریعے گھریلو اخراجات پورے کرنا اور قرض کی ادائیگی بہت مشکل ہوگیا تھا ۔سو ان کے والد نے انہیں قالین بننے کا ہنر سکھایا تاکہ قالین بننے کے ذریعے وہ اپنی کمائی سے ان کا سہارا بنیں۔
سن۱۹۷۸ میں معاشی حالات کچھ بہتر ہونے کے بعد والد نے ان کا داخلہ نویں جماعت میں الراضی اسکول میں کروایاجہاں سے انہوں نے پانچویں جماعت پڑھی تھی۔ہیڈ ماسٹر الراضی اسکول رفیق خانزادہ حیران تھے کے اتنے پریشان کن حالات کے باوجود تعلیم سے لگن کم نہ ہوئی اور وہ حقیقتاً نویں جماعت کے طالبعلم کے معیار پر پورے اترے ۔ میٹرک اچھے گریڈز سے پاس کیااور انٹر میں داخلہ لے کے قالین سے دوستی چھوڑ کر ٹیوشنزدے کے گھرکو مالی سہارا دیا۔میڈیکل یونیورسٹی میں جانا آپ کی خواہش تھی پر ٹیوشنز پہ زیادہ اور پڑھائی پر کم توجہ دینے کے سبب گریڈز اچھے نہ آپائے اور یہ خواہش دم توڑ گئی لیکن اگر شوق حصولِ علم ہو تو رکنے کا کوئی جواز نہیں گورنمنٹ کالج سے بی۔ایس سی میں ایڈمیشن لیا اور تعلیم کا عمل جاری رکھا۔
بی ایس سی مکمل ہونے کے بعد اخبار میں آئی ہر پوسٹ پر اپلائی کرنا مشغلہ بن گیا تھا۔ ایچ ایس ٹی(ہائر اسکول ٹیچر) کا ٹیسٹ پاس کیا اور نوکری پر مامور ہوئے ایک سال بعد پاک بحریہ کے رزرو کمیشن کے ٹیسٹ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ طے کیا کہ پاک بحریہ جوائن کریں گے اور ایچ ایس ٹی کی پوسٹ بھی رکھیں گے۔ سو جیسا سوچا ویسا ہی کیا ایک سال کی ٹرینگ مکمل کرتے ہی کسی وجہ سے پاک بحریہ کے لانگ کمیشن اور رزرو کمیشن کے افسران میں لڑائی ہوگئی ۔ آگے پیش پیش رہنے کی خوبی کی وجہ سے آپ رزرو کمیشن افسران میں بھی نمایاں تھے اور اس لڑائی میں بھی جو آپ کو لے ڈوبی اور آپ فارغ کر دیئے گئے۔
واپس آ کے بنا کوئی وقت ضائع کئے ایچ ایس ٹی کی پوسٹ پر دوبارہ براجمان ہوئے اور مرحلہ دشواری یہ پیش آیا کہ پوسٹنگ مٹیاری کے خیبر اسکول میں ہوئی جسے دو تین ماہ کی کوشش کے بعد حیدرآباد منتقل کرالیا۔ تھوڑاوقت گزرا ہی کے آرمی میں بطور ایجوکیشنل انسٹرکٹرپہ آئی پوسٹ پر اپلائی کیا اور امتحان میں کامیاب قرار پائے۔ یہ پوسٹ ان کے شوق علم و تعلم کے مطابق تھی اگرچہ قدرت کو کچھ اور منظور تھا ۔اپنی والدہ کی طبیعت خرابی کی وجہ سے کراچی سے بن بتائے حیدرآباد آجانے پر ان کے لئے سگنل جاری کر دئیے گئے کہ :ہی از ڈیزرٹڈ!
آج کے دورمیں نوجوان فورسز میں بھرتی ہونے کے شدید خواہشمند ہوتے ہیں لیکن شکیل اصغر جیسے پسماندہ بیک گراؤنڈکے لڑکے کیلئے یہ اس دوران غنیمت سے کم نہ تھا۔ جس کی زندگی زیادہ تر مسائل میں گزری اور معاشی سپورٹ بھی موجود نہیں پر ان کی ذہانت کی بدولت پاک فورسز کے اچھے رینکز کی جاب ان کے ہاتھ میں ہی تھی اور ان کے ہاتھ سے ہی گئی لیکن اس پر انہیں کوئی پچھتاوا نہیں۔بقول ان کے مشکل محسوس ہوتی تھی ایک جگہ سے ہٹ کے دوسری جگی ایڈجسٹ ہونے میں لیکن زندگی میں کبھی پچھتاوا کیا کیا ہی نہیں۔ اگر پچھتاوے کو زندگی میں زیادہ دیر رکھتا تو ماضی سے کبھی آگے نہیں نکل سکتا تھا۔
مجھے تعجب ہوا یہ جان کے کہ ان کی زندگی میں فراغت کا کوئی لمحہ نصییب ہوتا تو وہ کیا کِیا کرتے جس پر انہوں نے بتایا کبھی فراغت کا موقع ملا ہی نہیں بچے چھوٹی عمر میں کھیل کود اور سائیکلنگ کرتے ہیں اور ہم قالین کے پھندے کاٹتے تھے ۔جوانی میں بھی کوئی سوشل لائف نصیب نہیں ہوئی۔ گھر میں بڑے ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سنجیدہ مزاج رہا ۔ دماغ میں بس یہی ہوتا تھا کہ جو قرضہ بہن کی شادی کیلئے لیا ہے اسے ادا کرنا ہے۔زندگی میں اگر کہیں چھوٹا سا ملال ہے بھی تو وہ سائکلنگ نہ کرنے کا جس وجہ سے مجھے آج میں بائیک کی تعلیم سے محروم ہوں۔ خیر یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ۔آج جب ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو لگتا ہے کہ سمجھ آتی ہے کہ میری طبیعت حاکمانہ مزاج کی تھی جس وجہ سے میں کسی کے طابع یس سر یس سر کہہ نہیں سکتا تھااور ایجوکیشن سیکٹر کے علاوہ کہیں ٹک نہیں پایا۔آج شکیل اصغرسیٹ کمال ہائی اسکول میں بی پی ایس بائیس گریڈ افسر بطور ہیڈماسٹر فرائز انجام دے رہے ہیں۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment