Iqra Mallah: Kotri Barrage Urdu feature BS roll 38
فیچر رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔ اس میں سیکنڈری ڈیٹا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پرائمری ڈیٹا انتہائی ضروری ہے۔ مطلب متعلقہ لوگوں سے بات چیت ان کے خوٹ بھی لیں۔
کوٹری بیراج سے نواب شاہ پانی کیسے جائے گا؟
تاریخ اور ماضی کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھو کہ آج کیا صورتحال ہے۔
آپ کی آؤٹ لائن کیا تھی؟ کوٹری بیراج کا کونسا پہلو؟ تھوڑی سی بیراج کی منظر کشی بھی کرتے
Iqra Mallah: Kotri Barrage Urdu feature BS roll 38
اقراء ملاح
بی۔ایس۔پارٹ: تھری
رول نمبر: 38
فیچر کوٹری بیراج
یوں تو انسان کے زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی، غذا جیسی بنیادی ضروریات درکار ہوتی ہیں۔ جن میں پانی ایک اہم جز ہے۔ پانی ہمارے لیے انتہائی ضرری ہے۔ پانی کے ذخیروں کی بنیاد پر دنیا آباد ہے۔ شیر دریا یعنی "دریائے سندھ" پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم دریا ہے۔ یہ دریا اپنی لہروں کی موجوں سے بھارت اور کشمیر سے گزرتا ہوا صوبہء سرحد میں داخل ہوتا ہے۔ صوبہء سرحد میں اسے"عباسین"کہا جاتا ہے۔ جس کی معنیٰ "سب دریاؤں کا باپ ہے"۔ ابرِ کرم کے جوش میں آنے کے بعد دریائے سندھ کی لہروں میں شور و غل اُٹھ کڑا ہوتا ہے اور روانی میں تیزی دکھائی دیتی ہے، اور پھر ایسا لگتا ہے جیسے انسان کھڑے کھڑے کسی حسین وادی کے نظاروں میں کھو گیا ہے۔ دریائے سندھ میں ہر سال بارش کے پانی کے بہاؤ کی وجہ سے اونچی سطح میں اضافہ بڑھتا چلا جاتا ہے، جس کو قابو کرنے کے لیے بیراجز بنائی گئی ہیں۔ جس میں کوٹری بیراج، گڈو بیراج اور سکھر بیراج شامل ہیں۔
کوٹری بیراج جامشورو اور حیدرآباد کے درمیان میں واقع ہے۔ جس کی تعمیر کا کام 1955 ء میں مکمل کیا گیا تھا ۔ یہ دنیا کے قدیم بیراجوں میں سے ایک ہے۔ کوٹری بیراج کو "غلام محمد"بیراج کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ 20984فٹ پر واقع اس بیراج کو8لاکھ7ہزار کیوسک فٹ پانی گزارنے کے لیے بنایا گیا تھا ۔اس بیراج میں 1956 ء میں9لاکھ 81ہزار کیوسک پانی گزارا گیا ۔ دریائے پر سندھ میں واقع تینوں بیراجوں سے ملک میں کاشتکاری اور صنعت کاری کے لیے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیلابوں پر بھی قابو پایا جاتا ہے۔
اردگرد قائم مختلف اشیاء کے اسٹال اور ہوٹل لوگوں کی سیر و تفریح کو چار چاند لگادینے ہیں۔ سیاح گھومنے پھرنے کے ساتھ ساتھ موسم کا مزہ لیتے ہوئے مختلف اسٹالس کا رخ کرتے ہیں۔ کوئی مکئی کے دانے کھا رہا ہے ، تو کوئی فروٹ چاٹ، کوئی بریانی کے ذائقے کو پسند کرکے لطف اُٹھا رہا ہے تو کوئی مچھلی کھا کر اس کے واہ واہ کی آوازیں بلند کر رہا ہے۔ لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر اپنی زندگی کے لمحات کو سیلفیوں میں قید کرکے ہمیشہ کے لیے یادگار بناتے ہیں۔
پاکستان کے سابق صدر غلام محمد خان کی حکومت میں مکمل ہونے والے اس بیراج سے ٹھٹھہ ،حیدرآباد اور نوابشاہ سمیت سندھ کے 90فیصد علاقوں کو پانی پہچایا جاتا ہے۔ کوٹری بیراج سے نکلنے والی نہروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہاں سے کل 4نہریں نکلتی ہی، دائیں کنارے کی طرف کلری جب کہ بائیں طرف پھلیلی اور پنیاری نہریں واقع ہیں۔ بیراج کے بند، سیلاب جیسی ناگہانی آفت کو روکنے کے لئے لگائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیراجوں کے اردگرد ڈاؤن اسٹریموں میں بڑے بڑے پتھر ڈالے جاتے ہیں تا کہ بارشوں اور سیلاب میں پانی کے بڑھتے بہاؤ بیراج کے بنیاد کو نقصان نہ پہنچ سکے۔
کوٹری بیراج کے گرد و نواح کی بات کی جائے تو یہاں سورج غروب ہونے یعنی دن ڈھلتے وقت ایک ایک دلکش منظر رونما ہوتا ہے جو کہ ہر ایک سانس اور آہ کے ساتھ دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔ یہاں آنے والے لوگوں سے بات چیت کے دوران یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوٹری بیراج پر آکر جب سورج کی آخری کرنوں کو پانی پر گرتے دیکھتے ہیں تو چہروں پر ہجرو غم کے آثار نظر آتے ہیں۔ ایک ویرانی سی چھانے لگتی ہے دلوں میں ہلچل ، بے چینی سی پیدا ہوتی ہے جو کہ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ قدرت کی بھی کیا شان ہے ہر ایک شے کی قضاء ہے ، ہر چمکتی چیز کو آخر میں مدہم ہونا ہے۔
دیکھا جائے تو بیراجز ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہیں کیونکہ ان سے نہ صرف زراعت میں ہمیں فائدہ ملتا ہے بلکہ اس کے ساتھ
ساتھ سیلابی آفتوں سے بھی پناہ میں رکھتے ہیں
IqraMallah, #KotriBarrage#
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh .
Comments
Post a Comment