Naseem- My first vote

Make it more interesting 
Feature carries 5Ws+1H. It main purpose is to entertain. Hence written in interesting manner. Feature is always reporting based i.e. Observation, primary data, talk with related people, can use secondary data, but first three things are most important  
Naseem- My first vote Feature- MA- Urdu
نام:۔ نسیم اختر مغل
MMC/2k18#27
فیچر:۔
میراپہلا ووٹ :۔
الیکشن کے دن کی روداد!
جمہوری مملکت میں الیکشن کا دن بھی گویا عید کے دن کے جیسا پر جوش اور گہما گہمی سے بھرپور ہوتا ہے۔عوام ایک نئے جذبے سے سرشار ایک نئی امید کیساتھ پولنگ اسٹیشنز کا رخ کرتی ہے ۔
ہر شخص پولنگ اسٹیشن جانے کی تیاری میں مصروف تھا۔ جنہوں نے پہلی بار ووٹ کاسٹ کرنے جیسے تجربے سے گذرنا تھا ان کے انداز میں خوشگواریت زیادہ تھی۔
ہمارا ووٹ جس دوردراز علاقے میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن میں تھا وہاں تک پہنچنا بھی ایک دلچسپ تجربہ ثابت ہوا ۔بوجہ انتہائی خستہ حال سڑکوں اور راستوں کے ،جہاں گذشتہ /سابقہ حکومت کی ترقی ابھی نہیں پہنچی تھی۔
گوٹھ دیہاتوں میں تو یہ چلن بھی عام ہے کہ الیکشن کے دن مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے گھر گھر جاکر ووٹرز جمع کرکے گاڑیاں بھر کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچا تودیتے ہیں مگر واپس بے چارے ووٹرکی اپنی صوابدیدپر ہوتی ہے۔
ہمارے پاس چونکہ ذاتی سواری تھی تو اس پر جانے کو ترجیح دی۔اونچے نیچے راستے ،کچی سڑکیں،جو عام دنوں میں شاید دھول اڑاتی ہیں مگر اس دن حالیہ ہونے والی بارش کے نتیجے میں گہرے کیچڑ میں لت پت نظرآتی تھیں۔
کہیں پکی سڑک کے نام پر نوکیلے پتھر بچھے ہوئے نظرآئے جس پر سے تارکول شاید کب کی اڑچکی تھی یا بہہ چکی تھی اب صرف آتی جاتی گاڑیوں کے ٹائروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کوئی مصرف نظرنہیں آتا۔لیکن خیر ووٹ ایک قومی امانت ہے اور اس کو حقداروں تک پہنچانے کے جذبے نے راستے کی کٹھنائیوں کو نظراندازکیا۔
پولنگ اسٹیشن ایک ایسے اسکول کی بلڈنگ میں قائم کیا گیا تھا جسے گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک ٹیچر نصیب نہیں،جہاں پڑھنے کی عمر کو پہنچنے والے بچے کچی پگڈنڈیوں پر مٹی میں کھیلتے بڑے ہوجاتے ہیں اور پھر مٹی ہوجاتے ہیں۔
اسکول کے مین گیٹ کی طرف مرد حضرات کا پولنگ اسٹیشن تھا ۔جبکہ پچھلی طرف خواتین کے لئے بنائے گئے پورشن کا داخلی دروازہ دیوار میں موجود ایک شگاف تھا۔جس میں سے خواتین اندرداخل ہوتیں اور اپنا ووٹ ڈال کر باہر نکل آتیں۔
دیوار کے اس سوراخ میں سے ہم بھی جھک کر اندرداخل ہوئے ،دھڑکتے دل اور خوشگوار حیرت کے ساتھ تین میزوں پر سے ابتدائی کا روائی مکمل کرواکر آگے بنے پارٹیشن کے اندرجاکر اپنا زندگی کا پہلا ووٹ بیلٹ باکس میں ڈال دیا۔ہم اس انوکھے تجربے کو اپنے کیمرہ میں بطور یادگار اتارنا ہی چاہتے تھے کہ ڈیوٹی پر موجود سیکیورٹی اہلکار نے ہماری اس کوشش کو ناکام بنا دیا سو ہم نے باہر کی راہ لی جہاں ایک چھوٹے سے ٹینٹ تلے زمین پر بچھی چٹائیوں پر بیٹھنے کاانتظام تھا ۔
وہاں بیٹھی خواتین اور ان سے بات چیت سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں ٹھپہ نوٹ پر لگایا جاتا ہے کسی انتخابی نشان یا مخلص شخصیت پر نہیں۔وہاں موجود ایسے ہی ٹھپے لگانے والی خواتین کو ہم نے شعور اور لیکچر دینے کی ناکام کوشش کی۔
90% خواتین کا مؤقف تھا ’’جہاں سے ہم پیسہ لیتے ہیں ووٹ بھی ان کو ہی دیں گے‘‘
’’ہم نہیں جانتے کون آتا ہے کون جاتا ہے ہمیں بس پیسہ ملتا رہے ‘‘
ایک خاتون نے تویہ تک کہہ دیا!
’’ہم غریب لوگ ہیں ہمیں پیسے سے غرض ہے‘‘
یہ سختی سے اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی،پیٹ کے افلاس میں اُلجھی بے شعور ،کم علم عوام تھی۔
ہم نے افسوس سے سرجھٹکااور دُکھ بھری نظراسکول کی عمارت پر ڈالی جسے خداجانے کب کوئی معلم آباد کرے گا؟بچوں کی آوازیں گونجیں گی اور علم گھر گھر پھیلے گا!
بوجھل دل میں اُمید کی ایک نئی شمع روشن کئے ہم واپسی کے سفر کے لئے روانہ ہوئے کہ شاید اب کے پاکستان کی تقدیر بدل جائے۔اورصحیح معنوں میں تبدیلی آئے۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi 
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh  

Comments

Popular posts from this blog

Institute of Arts & Design فائن آرٽس_اقصيٰ نظاماڻي Aqsa Nizamani

Saman- Makeup negative aspects Feature-Urdu-BS#3

Dr Aziz Talpur Profile