Mannum Abdi- We want to change but ... Article- BS#3- Urdu

ہم بدلنا تو چاہتے ہیں ۔۔۔پر دوسروں کو
Mannum Abdi-  We want to change but ... Article- BS#3- Urdu
نام: سیدہ منعم زہرہ عابدی
آرٹیکل ۔بی ایس ۱۱۱
تبدیلی ہمیشہ ہمارے لئے بڑے پیمانے پر ہونے والی چیز کو سمجھا جاتا ہے مانا یہ بڑی ضرور پر مشکل شے نہیں۔دورِ حاضر میں اور اس سے کچھ سال قبل پاکستان میں تبدیلی ایک نعرہ ایک وژن بن گئی ہے۔جسے اہلِ پاکستان نے ایسی نظروں سے دیکھا ہے جیسے دیسی ودیسی کو دیکھتے ہیں۔ جی نہیں جناب !یہ کوئی ودیسی نہیں بلکہ آپ کے اندر کی چھپی قوت ہے۔
اگر رات دیر سے سونے کے باوجود صبح جلدی اٹھنے کا عہد آپ کو بیدار کردے اور آپ صبح دیرتک سونا چھوڑ دیں تو یہ تبدیلی ہے۔اگر آپ رشوت کے سسٹم کا حصہ ہیں تو اپنے آپ کو سسٹم سے نکالنے کی کوشش یہ تبدیلی کا حصہ ہے۔اگر آپ اپنے گھر کو گندا نہ کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے باہر بھی گندگی نہ پھیلائیں اور اسے روکنے کی ترغیب دیں تو یہ تبدیلی ہے۔ یاد رکھیں تبدیلی ظاہری ، باطنی ، روحانی ، دماغی ، اخلاقی ، سماجی، زندگی کے ہر پہلو کی ضرورت ہے۔بقول فیض احمد فیضؔ 
ابھی گرانئی شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
دنیا ارتقاء کی بنیاد پر تخلیق ہے جس کا مطلب وقت کے ساتھ ساتھ ڈویلپ ہونا ہے۔انسان خود ڈویلپمنٹ کی طرف بڑھ رہا ہے اس کا رہن سہن اور چال چلن وقت کے ساتھ ترقی پا رہا ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ڈویلپمنٹ کرتا جا رہا ہے پر اپنے سماجی و اخلاقی پہلوؤں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ ایک گھر میں رہتے افراد ایک دوسرے سے تو بے خبر ہیں پر اپنے سوشل سرکل میں خوب اِن ،گھریلو مسائل کا تو کوئی حل نہیں جبکہ دوسروں کو خوب حل مہیا کیئے جاتے ہیں۔اگر ہم اپنی سوشل لائف اور دیگر معاملاتِ زندگی میں توازن پیدا کر سکیں تو ہمارے اپنے مسائل بہت حد تک درست ہوجائیں گے جس کی خرابی کی وجہ اکثر ہم دوسروں کو قرار دیتے ہیں۔
حالیہ دور میں ہوئے الیکشن سے ہم اتنی زیادہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ جیسے آئندہ پانچ سال پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنا دیں گے، معیشت تگڑی ہوجائے گی، ادارے میرٹ پر فوکس کریں گے،تعلیم سَستی اور معیاری ہوگی، ہسپتالوں میں پہنچنے سے پہلے ہی ایمبولنس میں علاج ہوجائے گا،لوڈشیڈنگ صفر اور بل سو سے اوپر نہ ہوگا۔پر ایسا ممکن نہیں جناب خوابِ خرگوش کے مزے لینے سے رکیئے !کیونکہ پاکستان پرانا ہے ،عوام پرانی ہے حتیٰ کہ ایوان بھی ۔فرق ہے تو شکلوں کاپہلے وزیر کوئی تھا اب کوئی اور ہوگا ۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ووٹ ہم نے دیا تو تبدیلی ہم سے آغازکر رہی ہے۔ووٹ سے تبدیلی کا آغاز کیا ہے تو یہ جان لیں کہ ایوانوں میں بیٹھے ہمارے مسائل ضرور سنیں گے پر معاشرتی سطح پر ان مسائل سے ہمیں خود سامنا کرنا ہے۔گھر کے اندر کے ساتھ ساتھ گھر کے باہر بھی کچرا نہ کرنا ہماری ذمیداری ہے اسے کوئی سیاستدان آکے نہیں اٹھائے گا۔ ٹریفک قوانین کی تحمل سے پابندی کرنا ہماری ذمیداری ہے وزراء کی نہیں۔ تیز رائڈنگ اور وہیلنگ کرنا ہماری جان لے سکتا ہے تو ایسی حرکات سے باز رہنا بھی ہمیں خود چاہیئے۔
تبدیلی صرف نعروں ،ملی نغموں یا ایوانو ں میں بدلے لیڈرز کے زریعے ممکن نہیں اس کو عملی جامہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں پہنائیں ۔روز چھوٹی ہی سہی پر کوئی نئی کوشش کریں ۔ ملک کو بہتر بنانے میں اپنی جانب سے کوشش کیئے جائیں یقیناًیہ کاوشیں تبدیلی ضرور لائیں گی اور اس کے آغاز میں پہل کسی دوسرے سے نہیں خود سے کیجیئے۔
بدلنا ہے تو مے بدلو مزاجِ مے کشی بدلو
وگرنہ مینہ و ساغر کے بدل دینے سے کیا ہوگا
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi 
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh  

Comments

Popular posts from this blog

Institute of Arts & Design فائن آرٽس_اقصيٰ نظاماڻي Aqsa Nizamani

Dr Aziz Talpur Profile

Saman- Makeup negative aspects Feature-Urdu-BS#3