Bibi Rabia- One Day in Zoo

Bibi Rabia- One Day in Zoo feature- BS#3- Urdu
نام:بی بی رابیعہ
کلاس: بی۔ایس پارٹ تھری 
رول نمبر:۲۴
چڑیا گھر میں ایک دن۔۔۔
خواتین گھریلوں کام کاج چھوڑکر جھولا جھولنے آتی ہیں۔۔
گرمیوں کی چھٹیاں جب بھی آتی ہیں تو گھومنے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے کیونکہ یہ دو ماہ ایسے ہوتے ہیں جس میں ہر مصروف سے مصروف انسان تفریح کے لئے وقت نکالتا ہے اور نئی سے نئی تفریحی جگہ جا نا چاہتا ہے ۔ہر سال کی طرح اس سال بھی گرمیوں کی چھٹیاں آتے ہی گھر میں گھومنے کے پروگرام بننا شروع ہوگئے ،بہت سے خیالی پلاؤ بنائیں مختلف جگہ گھومنے کے جیسے سی۔ویو،ہاکس بے ،الادن۔ لیکن جی وہ تصوراتی پلاؤ ناکام ہوگئے اور بلا آخررخ کیا کراچی کے چڑیا گھر کا اور دن تھا بدھ کا جو کہ خواتین کے لیے مقرر ہے 
چڑ یا گھر میں اینٹری ٹکٹ لینے کے لیے عورتوں کی لمبی قطار تھی کوئی قطار کے بیچھ میں گھس کے ٹکٹ لے کر اندر داخل ہورہی تھی تو کوئی بچاری اصولوں کی پابند انتظار میں ہی قطار میں کھڑی رہتی نظر آتی،مجھے اور میرے ساتھ خالہ کو بھی جیسے ہی ٹکٹ ملی تو بڑی خوشی کے ساتھ اندر چڑیاگھر میں داخل ہوئے ،اندر جاتے ہی ایسا لگا کہ آج تو جیسے عورتوں کی عید ہے نت نئے ریشمی لباس میں ملبوس خواتین چہرے پر مسکراہٹ سجائے چڑیا گھر کی سیر کرہی تھی ۔کافی پنجروں کے پاس تھی تو کئی ہریالی میں بیٹھی تھی ،کئی تو سیلفیاں بنانے میں مشغول تھی ،کئی بچے اپنے ماؤں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئے ۔
زیادہ ترہجوم جھولوں کی طرف نظر آیا،چونکہ بچے زیادہ شوقین جھولوں کے ہوتے ہیں تو اپنی اماں، بہنوں کے ساتھ جھولوں میں بیٹھے لطف اٹھا رہے تھے۔جیسے ہی کوئی بھی جھولا خالی ہوتا تو فوراً بھر جاتا۔جھولوں کے ٹکٹ لینے پر بھی لمبی لائن لگی تھی۔
چڑیا گھر میں چیتا ،زیبرا اور بندر،مگر مچھ وغیرہ اپنے پنجروں میں موجودتھے جسے دیکھ کر ہی بچے اور عورتیں خوش ہو رہے تھے،چیتا ایک ہی جگہ بیٹھا تھا بندر جوئیں نکالنے میں مصروف تھا تو زیبرا اپنے پنجرے میں چکر کاٹ رہا تھا ،جیسیے ہی زیبرا کو بچے قریب سے دیکھتے تو تالیاں بجانا شروع کر دیتے ۔خاتون انکی ویڈیو بناتی ۔اسکے علاوہ کئی پنجرے خالی بھی نظر آئے۔
عورتیں خاص کر کے ممتاز بیگم کو دیکھنے کے لئے ٹکٹ لے رہے تھی اور دیکھنے کے بعد ہنس ہنس کر پاگل ہورہے تھی،بھوت گھر سے جو عورتیں نکل رہی تھی رونے جیسا منہ بنایا ہوا تھا۔پوچھنے پر معلوم ہوا تو کہ رہی تھی کہ بہت خوفناک ہے باقی تو دلبرداشتہ عورتیں وہاں سے بھی ہنس کر نکل رہی تھی۔ہاتھی کو دیکھنے کے لیے بھی کافی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔
وہاں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی اور ہر عمر کی خاتون آئی ہوئی تھی، میری کافی عورتوں سے باتیں ہوئی جن میں سے کئی کا کہنا تھا کہ وہ گھریلوں مصروفیات سے فارغ ہوکرہر ماہ میں ایک دن یہاں ضرو ر آتی ہیں صبح سے شام تک یہاں ہوتی ہیں کھانا گھر سے بنا کر لاتی ہیں ایک دوسرے سے کچہری کر کے دل بہلاتی ہیں اپنے غم اور فکر سے تھوڑی دیر کے لئے دور ہوجاتی ہیں اور یہاں جھولوں میں بھی بیٹھتی ہیں اور بھر پور لطف اٹھاتی ہیں،حیدرآباد سے بھی کئی عورتیں آئی ہوئی تھی جن کا کہنا تھا کہ وہاں بھی چڑیا گھر میں عورتوں کے لے ایک مخصوص دن ہوناچاہیے او ر جو نایاب جانور یہاں ہیں حیدرآباد کے چڑیا گھر میں بھی ہونے چاہیے تاکہ لوگوں کی دلچسبی بڑھے ۔
اگردیکھا جائے تو حیدرآباد میں تفریحی مقام کم ہیں اور جو ہیں وہ بھی ناقص حالت کی وجہ سے بے رونق ہے،اسلئیے حیدرآبادچڑیا گھر کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ احسن طریقے سے اپنی ذمہ داری نبھائے اور چڑیا گھر کو وہاں کی عوام اور بچوں کے لئے ایک بہترین تفریح گاہ کے طور ثابت کریں۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi 
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh  
 

Comments

Popular posts from this blog

Institute of Arts & Design فائن آرٽس_اقصيٰ نظاماڻي Aqsa Nizamani

Saman- Makeup negative aspects Feature-Urdu-BS#3

Dr Aziz Talpur Profile