Arshia- worst conditions of Hospitals
Referred back. file again till August 25
Article is to analsye, interpret, explain or argue anything. It should have relevancy, thought, figures and facts, conclusion. It should carry reference of some report etc.
Here no figures facts, reference of reports, it too general observation with no supporting arguments and evidence
Make it concrete and specific
Arshia- worst conditions of Hospitals Article-MA- Urdu
سرکاری ہسپتال اور پرائیوٹ ہسپتال کے حال
نام: عرشیہ
رول نمبر: 6
M.A (Pre)
دنیا میں دو طرح کے ادارے پائے جاتے ہیں سرکاری اور پرائیوٹ ، سرکاری ادارہ وہ ہاتا ہے جس میں گورنمنٹ اس ادارے کو تمام چیزیں فراہم کرتی ہے اس میں ہسپتال اور دیگر ادارے بھی آتے ہیں اور اس طرح پرائیوٹ ادارے ہتے ہیں جو گورنمنٹ کے ما تحت تو ہیں ہوتے لیکن ان کو چلانے والا کوئی ایک شخص یا تنظیم ہوتی ہے ۔ جس کے ماتحت وہ ادارے کام کرتے ہیں اس کے اندر ہسپتال بھی آتے ہیں ان ہسپتالوں میں علاج کیا جاتا ہے مگر ان دونوں پرائیوٹ اور سرکاری اداروں میں فرق یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال میں علاج مفت کیا جاتاہے جبکہ پرائیوٹ ہسپتال میں علاج کراونا ہر فریض کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے ۔اس لئے زیادہ تر لوگ سرکاری ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں۔
پرائیوٹ ہسپتالوں پر نظر ثانی کریں تو ان کا حال سرکاری ہسپتالوں سے کافی بہتر ہے ۔پرائیوٹ ہسپتال ساف ستھرا ہی نہیں بلکہ وہاں کی انتظامیہ ،ڈاکٹر ،نہ کس اور دیگر افراد جو ہسپتال چلانے میں مد کررہے ہوتے ہیں وہ باخوبی اپنا کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ پرائیوٹ ہسپتال میں دوائیوں اور طبی آلات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ کسی بھی مریض کو ان چیزوں سے نقصان نہ ہوسکے ۔ ایمرجنسی کی صورت حال میں ہر وقت ڈاکٹر اور تمام ضرورت کی چیزں میسر ہوتی ہیں ۔ ایسی طرح اگر سرکاری ہسپتالوں پر نظر ثانی کی جائے تو پرائیوٹ ہسپتالوں کے مقابلے میں سرکاری ہسپتالوں کا حال خاصا بُرا ہے ۔ سرکاری ہسپتالوں میں نہ تو صاف ستھرا ہوتا اور نہ ہی ہر وقت ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں ۔ کسی بھی مریض کو دیکھنے کے لئے سرکاری ہسپتال کی انتظامیہ نہ تو اپنا کام باخوبی کررہی ہے اور نہ ہی وہاں کے ڈاکٹر مریضوں کا علاج صحیح طریقے سے کرتے ہیں ۔ جعلی دوائیاں اور طبی آلات بھی زنگ آلودہ ہوتے ہیں جو ہر مریفض کے لئے نقصاندہ ثابت ہوتا ہے سر کاری ہسپتالوں سے علاج کروانے والے مریضوں کو جس کی وجہ سے بہت مشکلا ت کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔
دیکھا جائے تو پہلے کے دور میں سرکاری ہسپتالوں سے ہی ہر طبقہ کے لوگ علاج کرواتے تھے کیونکہ پہلے سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی آج کے دور کے مقابلے میں کافی بہتر تھی اوراس دور میں پرائیوٹ ہسپتالوں کی طرف عوام رُخ نہیں کرتی تھی مگر آج کے دور میں گورنمنٹ پی پی ایچ کے ما تحت ہسپتال قائم کئے گئے ہیں ۔جو کہ دیہی علاقوں کے لئے ہے مگر پر سان حال یہ ہے کہ وہاں کام کرنے والوں کے لئے کوئی سہولیات نہیں ہے اور خواتین کے لئے بھی کوئی خا طر خواہ انتظام نہیں اور لوگ در بدر رسوا ہورہے ہیں۔ مگر ان لوگوں کے پاس پرائیوٹ ہسپتال میں جانے کے لئے کوئی پیسے نہین اور اس طرح وہاں کے عملے میں خواتین کی کمی ہے جس کی بنیاد خواتین کو پریشانی کا سامنا ہے اور اسی طریقے سے عملے کی کمی کے ساتھ آلات کی کمی کا بھی سامانہ ہے جس کے بنا پر دیہات میں چھوٹے سے چھوٹا بھی علاج نہیں ہو پاتااور عوام کو مجبوراً بڑے ہسپتالوں کی جانب بھیجا جاتا ہے ۔ مگر پاکستان میں اسے لوگ بھی ہیں جو کہ سرکاری ہسپتالوں کو خود چلا رہے ہیں جیسے کہ کرکٹر شاہد آفریدی انہوں نے اپنے آبائی علاقے میں ہسپتال بنوایا اور اسی طرح عمران خان کہ انہوں نے کینسر سے لڑنے کے لئے پاکستان میں مفت علاج کے لئے شوکت خانم ہسپتال بنوایا۔جب کے یہ کام گورنمنٹ کے ہیں کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کریں۔ اور ہر ممکن صورت میں عوام کی مدد کریں۔
نام: عرشیہ
رول نمبر: 6
M.A (Pre)
دنیا میں دو طرح کے ادارے پائے جاتے ہیں سرکاری اور پرائیوٹ ، سرکاری ادارہ وہ ہاتا ہے جس میں گورنمنٹ اس ادارے کو تمام چیزیں فراہم کرتی ہے اس میں ہسپتال اور دیگر ادارے بھی آتے ہیں اور اس طرح پرائیوٹ ادارے ہتے ہیں جو گورنمنٹ کے ما تحت تو ہیں ہوتے لیکن ان کو چلانے والا کوئی ایک شخص یا تنظیم ہوتی ہے ۔ جس کے ماتحت وہ ادارے کام کرتے ہیں اس کے اندر ہسپتال بھی آتے ہیں ان ہسپتالوں میں علاج کیا جاتا ہے مگر ان دونوں پرائیوٹ اور سرکاری اداروں میں فرق یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال میں علاج مفت کیا جاتاہے جبکہ پرائیوٹ ہسپتال میں علاج کراونا ہر فریض کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے ۔اس لئے زیادہ تر لوگ سرکاری ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں۔
پرائیوٹ ہسپتالوں پر نظر ثانی کریں تو ان کا حال سرکاری ہسپتالوں سے کافی بہتر ہے ۔پرائیوٹ ہسپتال ساف ستھرا ہی نہیں بلکہ وہاں کی انتظامیہ ،ڈاکٹر ،نہ کس اور دیگر افراد جو ہسپتال چلانے میں مد کررہے ہوتے ہیں وہ باخوبی اپنا کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ پرائیوٹ ہسپتال میں دوائیوں اور طبی آلات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ کسی بھی مریض کو ان چیزوں سے نقصان نہ ہوسکے ۔ ایمرجنسی کی صورت حال میں ہر وقت ڈاکٹر اور تمام ضرورت کی چیزں میسر ہوتی ہیں ۔ ایسی طرح اگر سرکاری ہسپتالوں پر نظر ثانی کی جائے تو پرائیوٹ ہسپتالوں کے مقابلے میں سرکاری ہسپتالوں کا حال خاصا بُرا ہے ۔ سرکاری ہسپتالوں میں نہ تو صاف ستھرا ہوتا اور نہ ہی ہر وقت ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں ۔ کسی بھی مریض کو دیکھنے کے لئے سرکاری ہسپتال کی انتظامیہ نہ تو اپنا کام باخوبی کررہی ہے اور نہ ہی وہاں کے ڈاکٹر مریضوں کا علاج صحیح طریقے سے کرتے ہیں ۔ جعلی دوائیاں اور طبی آلات بھی زنگ آلودہ ہوتے ہیں جو ہر مریفض کے لئے نقصاندہ ثابت ہوتا ہے سر کاری ہسپتالوں سے علاج کروانے والے مریضوں کو جس کی وجہ سے بہت مشکلا ت کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔
دیکھا جائے تو پہلے کے دور میں سرکاری ہسپتالوں سے ہی ہر طبقہ کے لوگ علاج کرواتے تھے کیونکہ پہلے سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی آج کے دور کے مقابلے میں کافی بہتر تھی اوراس دور میں پرائیوٹ ہسپتالوں کی طرف عوام رُخ نہیں کرتی تھی مگر آج کے دور میں گورنمنٹ پی پی ایچ کے ما تحت ہسپتال قائم کئے گئے ہیں ۔جو کہ دیہی علاقوں کے لئے ہے مگر پر سان حال یہ ہے کہ وہاں کام کرنے والوں کے لئے کوئی سہولیات نہیں ہے اور خواتین کے لئے بھی کوئی خا طر خواہ انتظام نہیں اور لوگ در بدر رسوا ہورہے ہیں۔ مگر ان لوگوں کے پاس پرائیوٹ ہسپتال میں جانے کے لئے کوئی پیسے نہین اور اس طرح وہاں کے عملے میں خواتین کی کمی ہے جس کی بنیاد خواتین کو پریشانی کا سامنا ہے اور اسی طریقے سے عملے کی کمی کے ساتھ آلات کی کمی کا بھی سامانہ ہے جس کے بنا پر دیہات میں چھوٹے سے چھوٹا بھی علاج نہیں ہو پاتااور عوام کو مجبوراً بڑے ہسپتالوں کی جانب بھیجا جاتا ہے ۔ مگر پاکستان میں اسے لوگ بھی ہیں جو کہ سرکاری ہسپتالوں کو خود چلا رہے ہیں جیسے کہ کرکٹر شاہد آفریدی انہوں نے اپنے آبائی علاقے میں ہسپتال بنوایا اور اسی طرح عمران خان کہ انہوں نے کینسر سے لڑنے کے لئے پاکستان میں مفت علاج کے لئے شوکت خانم ہسپتال بنوایا۔جب کے یہ کام گورنمنٹ کے ہیں کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کریں۔ اور ہر ممکن صورت میں عوام کی مدد کریں۔
Practical work conducted under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media &Communication Studies, University of Sindh
Comments
Post a Comment